بُرے نہ ہوں ، تو ان ناموں کا رکھنا مستحسن اور افضل ہے۔
چوتھی بات:
چوتھے نمبر پر ارشاد فرمایا کہ زیادہ بُرے نام ’’حرب اور مُرّۃ‘‘ ہیں ،اس کی وجہ یہ کہ’’حَرب‘‘ کے معنیٰ جنگ اور لڑائی کے ہیں اور ’’مُرّۃ‘‘ کے معنیٰ کڑوہ کے ہیں ، بوجہ ان ناموں کے معنیٰ بُرے ہونے کے ان ناموں کے رکھنے سے منع فرمایا گیا۔برے ناموں میں شرکیہ نام ، شیطانی نام ، متبعین ِ شیطان کے نام ، مہمل(جن کا کوئی معنیٰ نہ ہو) نام اور ہر وہ نام داخل ہیں جن کے معنیٰ برے ہوں ۔
ذیل میں ان تمام قسموں کی قدرے تفصیل بیان کی جاتی ہے:
(1)شرکیہ ناموں سے مراد وہ نام ہیں ، جن میں عبدیت کی نسبت غیر اللہ کی طرف کی گئی ہو، مثلاً: عبد الرسول، عبد النبی، عبد الحسین، عبد المصطفیٰ، عبد الحجر، نبی بخش، رسول بخش، علی بخش، حسین بخش، حسین بخش، پیر بخش اور قلندر بخش وغیرہ۔
(2)شیطانی ناموں سے مراد وہ نام ہیں جو شیطان کے ہوں یا جن ناموں کی نسبت شیطان کی طرف ہو، مثلاً: ابلیس ، شیطان، حُباب، اجدع، خنزب،اعور، ولہان وغیرہ۔
(3)شیطان کے متبعین سے مراد فرعون، شداد، قارون، نمرود، ابو لہب، ابو جہل وغیرہ ہیں ۔نیز! اسی طرح جو نام کفار کے دیوی دیوتاؤں کے ہوں وہ بھی رکھنا جائز نہیں ہیں ، مثلاً: کرشن، ہری لال، ہری چندر وغیرہ۔
(4)اسی طریقے سے جن ناموں کو نبی اکرم ﷺ نے تبدیل کیا، ان کی وجہ ان ناموں کے معانی ناپسندیدہ ہونا تھے،مثلاً:عاص،عاصیۃ، اصرم، شھاب، غُراب، عُتلہ، نُعم، زَحم، قلیل، مِیسَم، اَسود، حَرب، عَقْرَبۃوغیرہ۔ یہ ایسے نام ہیں جن کے معانی اپنے مفہوم کے