ختنہ سے متعلق مسائل:
(1) عمل ختنہ ہمارے دیار میں مردوں کے لیے سنت ہے، عورتوں کے لیے نہیں ، البتہ اگر عورتیں بھی ختنہ کروا لیں تو ناجائز نہیں ہے؛ بلکہ بعض فقہاء نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔
(2) بلوغت سے پہلے پہلے ختنہ کروا دینا چاہیے، اگر کوئی عذر ہو تو بعد میں جیسے ہی اس پر قدرت ہوجائے، تو اس عمل کو کر لینا چاہیے۔
(3) لڑکے کے ختنہ کے لیے کوئی ماہر مرد ہونا چاہیے، اگر ایسا کوئی مرد میسر نہ ہو تو پھر عورت بھی یہ کام کر سکتی ہے، اسی طرح بچی کا ختنہ کوئی ماہر عورت ہی کرے ، البتہ اگر کوئی ماہر نہ ملے تو جو بھی ماہر مرد ملے ،وہ بھی کر سکتا ہے۔
(4) پیدائشی پیدا ہونے والے مختون کے ختنہ کی ضرورت نہیں ۔
(5) ختنہ کا جملہ خرچ بچے کا والد برداشت کرے گا، الا یہ کہ کوئی اور اپنی خوش سے یہ اخراجات اپنے ذمے لے تو ٹھیک ہے۔
(6) ختنہ کے موقع پر دعوت کرنے یا نہ کرنے میں اختلاف ہیبعض کی طرف سے ممانعت منقول ہے، اور دوسرے بعض جواز کے قائل ہیں ، بہر صورت ان مواقع پر ہونے والی رسوم و رواج اور منکرات سے بچنا از حد ضروری ہے۔
(7) اگر کوئی بچہ ختنہ سے قبل فوت ہو جائے تو اس کا ختنہ نہیں کیا جائے گا۔
نومولود کے پیشاب کا حکم
نومولود کا پیشاب بھی بالغ افراد کی طرح نجس ہے، صرف امام داؤد ظاہریؒ نومولود کے پیشاب کو طاہر بتاتے ہیں ، لیکن جمہور آئمہ کے نزدیک نومولود کا پیشاب ،لڑکے کا ہو یا لڑکی کا نجس ہے۔