یہ حرمت اس وجہ سے ہے کہ اس فعل میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تغییر و تبدیلی کرنا ہے، اور اس وجہ سے کہ اس فعل میں نسلِ انسانی کو ختم کرنا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس میں کسی جاندار کو عذاب دینا پایا جاتا ہے۔
اور اگر حمل میں جان پڑ چکی ہو (یعنی حمل ٹھہرے ہوئے چار ماہ کا عرصہ گذر چکا ہو )تو اس وقت اسقاطِ حمل کرنا حرام اور قتلِ نفس ہے، چاہے ڈاکٹروں کے کہنے کی وجہ سے اسقاط ہو(بایں صورت کہ بچہ معذور ہو گا ،یا نہایت کمزور ہو گا ،یا عجیب الخلقت ہو گا وغیرہ وغیرہ) یا ان کے کہے بغیر۔
وفي حاشیۃ ابن العابدین:’’لو أرادت إلقاء الماء بعد وصولہ إلیٰ الرحم، قالوا: إن مضت مدۃ ینفخ فیہ الروح لا یباح لھا۔و قبلہ اختلف المشائخ فیہ، والنفخ مقدر بمائۃ و عشرین یوماً بالحدیث‘‘۔(کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ:9 ؍537،دار الکتب العربي)
عارضی مانع ِ حمل تدابیراختیار کرنے کا حکم؟
کسی ایسے عذر کی وجہ سے جس کا شریعت نے بھی اعتبار کیا ہو ، منع حمل کے لئے عارضی طور پر مختلف تدابیر اختیار کرنے کی شرعاً گنجائش ہے،مثلاً: کوئی عورت بہت زیادہ کمزور ہو اور ماہر تجربہ کار مسلمان طبیب کی تشخیص کے مطابق اس عورت کے لئے حمل ٹھہر جانے کی صورت میں ناقابلِ برداشت تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، یا پیدا ہونے والے بچے کے نہایت کمزور یا ناقص پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ، یا اس سے پہلے والا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو، یا(اس بار کے حمل سے) پہلے بچے کی تربیت و پرورش اور دودھ پلانے پر اثر پڑتا