اعلاء السنن، جلد اول، صفحہ نمبر:473 پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث مروی ہے، جس سے صراحۃً غَسلِ بولِ غلام کا پتہ چلتا ہے،
’’قالت: کان رسول اللہ ﷺ یؤتیٰ بالصبیان، فأتی بصبي مرّۃ، فبال علیہ، فقال: صبّوا علیہ الماء صبّاً‘‘ رواہ الطحاوي واسنادہ صحیح (آثار السنن:1؍17)۔
ان وجوہات کی بناء پر شوافع کے استدلال کے جواب میں امام اعظم ؒ فرماتے ہیں ، کہ مناسب یہ ہے کہ جن احادیث میں ’’نضح‘‘ اور ’’رشّ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں ، اُن کے ایسے معنیٰ مراد لیے جائیں ، جو دوسری روایات کے مطابق ہوں ، اور وہ معنیٰ ہیں :’’غَسْلِ خفیف‘‘۔نضح اور ر شٌ کے الفاظ جہاں چھینٹے مارنے کے معنیٰ میں آتے ہیں ، وہاں غَسْلِ خفیف کے معنیٰ میں بھی متعارف ہیں ، اور خود امام شافعیٰ ؒ نے بعض مقامات پر ان الفاظ کی تشریح یہی کی ہے، مثلاً: ترمذی ہی میں ’’باب في المذيّ یصیب الثوب‘‘ کے تحت حضرت سہل بن حنیف ؒ کی روایت ہے ، جس میں آں حضرت ﷺ نے مذی سے تطہیر کا طریقہ بتلاتے ہوئے فرمایا:
’’یکفیک أن تأخذ کفّاً من مائٍ، فتنضِح بہ ثوبَک، حیث تریٰ أنّہ أصاب منہ‘‘۔
اس روایت کے تحت امام ترمذیؒ فرماتے ہیں :
’’وقد اختلف أھل العلم في المذي یصیب الثوب، فقال بعضہم: لا یجزیٔ إلا الغَسل، وھو قول الشافعيؒ و اسحاقؒ‘‘۔
ظاہر ہے کہ یہاں امام شافعیؒ نے ’’نضح ‘‘ کو’’غَسلِ خفیف ‘‘کے معنیٰ میں لیا ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم ، جلد اول، صفحہ : 143 پر باب المذی کے تحت