کہ وہ نجس ہے، جب کہ جمہور نجاست ِ بولِ غلام کے قائل ہیں ، قاضی عیاض ؒ نے امام شافعیؒ کا مسلک بھی بیان فرمایا، جو داؤد ظاہریؒ کا ہے، یعنی بولِ غلام طاہر ہے، لیکن علامہ نووی ؒ نے اس کی تردید کی ہے، اور فرمایا کہ امام شافعیؒبھی جمہور کی طرح نجاست کے قائل ہیں ۔
پھر جمہور کے مابین بولِ غلام سے طہارت حاصل کرنے میں اختلاف ہے، امام شافعیؒ ، امام احمدؒ، اور امام اسحاقؒ، کے نزدیک بولِ غلام کو دھونے کے بجائے اس پر پانی کے چھینٹے مار دینا کافی ہے، جب کہ جاریہ کے بارے میں غَسل ضروری ہے، پھر چھینٹے مارنے کی تحدید میں امام شافعیؒ کا ایک قول یہ ہے کہ تقاطر بالکل ضروری نہیں ، اور دوسرا مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ اتنے چھینٹے مارنے چاہئیں کہ خود تو تقاطر نہ ہو، لیکن نچوڑنے سے تقاطر ہو جائے۔
ان کے برخلاف امام اعظم ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، سفیان ثوریؒ اور فقہاء کوفہ کا مسلک یہ ہے کہ بولِ جاریہ کی طرح غَسل بھی ضروری ہے، البتہ بولِ غلامِ رضیع میں زیادہ مبالغہ کی ضرورت نہیں ، بلکہ غَسل ِ خفیف کافی ہے۔
امام شافعیؒ وغیرہ حدیث ِ باب سے اور ان تمام روایات سے استدلال کرتے ہیں ،جن میں بولِ غلام کے ساتھ ’’نضح‘‘ یا ’’رَش‘‘ کے الفاظ آئے ہیں ،جن کے معنیٰ ’’چھینٹے مارنے‘‘کے ہیں ۔
حنفیہ کا استدلال ِ اوّل تو اِن احادیث سے ہے، جن میں پیشاب سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے، اور اسے نجس قرار دیا گیا ہے، اور یہ احادیث عام ہیں ، اور ان میں کسی خاص بول کی تخصیص نہیں ، دوسرے بولِ غلام ہی کے سلسلہ میں حدیث میں ’’صبّ علیہ الماء‘‘اور ’’اتبعہ الماء‘‘ بھی وارد ہوا ہے، جو غَسل پر صریح ہے، ایسی احادیث کے تمام طُرُق کی تخریج صحیح مسلم میں موجود ہے۔ بلکہ