ہو تو کسی فاسد عقیدے کے بغیر ، بیوی کی اجازت اور رضامندی سے عزل یا عارضی مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں بصورتِ دیگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
علامہ شامی رحمہ اللہ ’’شرح الدر المختار‘‘ میں فرماتے ہیں :
ویکرہ أن تسقیٰ لإسقاط حملھا وجاز لعذر حیث لا یُتَصوَّرُ(الدرالمختار)وقال تحت قولہ’’وجاز لعذر‘‘کالمرضعۃإذا ظھر بھا الحبل وانقطع لبنھا و لیس لأبي الصبي ما یستأجر بہ الظئر ویخاف ھلاک الولد، قالوا: یباح لھا أن تعالج في استنزال الدم، ما دام الحمل مضغۃ أو علقۃ ولم یخلق لہ عضو وقدروا تلک المدۃ بمائۃ و عشرین یوماً، جاز لأنہ لیس بآدمي و فیہ صیانۃ الآدمي، خانیۃ۔قولہ:’’حیث لا یتصور‘‘ قید لقولہ: ’’و جاز لعذر‘‘، والتصور کما في القنیۃ أن یظھر لہ شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذالک۔
(حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في الاستبراء و غیرہ،9؍615، دار عالم الکتاب)
مندرجہ بالا بحث سے پوری طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی نسل کشی کی جتنی بھی صورتیں ہیں ، شرعاً ناجائز اور حرام ہیں ، سوائے عذر والی چند صورتوں کے، کہ مخصوص شرائط کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔اس کے بالمقابل حصول ِاولاد کی اہمیت بھی پوری طرح سامنے آچکی ہے۔