وھي ’’وإذا الموؤدۃ سئلت‘‘، الوأد دفن البنت وھي حیۃ وکانت العرب تفعلہ خشیۃ الإملاق و ربما فعلوہ خوف العار۔(شرح النوويعلی صحیح مسلم:10؍17،المطبعۃ المصریۃ بالأزھر)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ عرب اپنی بیٹیوں کو تنگ دستی کے خوف اور شرم و عار کی بناء پر زمین میں زندہ دفن کر دیتے تھے۔
ان کا یہ فعل علی الاعلان ہوتا تھا ، اور عزل کی صورت میں یہی فعل خفیۃً ہوتا ہے لہذا جیسے زندہ درگور کرنا اللہ رب العزت کے نزدیک بہت بڑا گناہ اور قتل کرنا ہے اسی طرح خفیہ طور پر زندہ درگور (یعنی عزل )کرنا بھی ہے۔اور اگر یہ تدابیرایسی ہوں جن سے پیدائشِ اولاد کی صلاحیت ہی ختم ہو جائے تو ایسا کرنا بھی شرعاً بالکلیہ ناجائز ہے،
چناں چہ اس بارے میں علامہ عینی رحمہ اللہ(اس حدیث کی شرح میں جس میں آپ ﷺ نے خصی ہونے [یعنی: اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے ]سے منع فرمایا ) ارشاد فرماتے ہیں :
قال العلامۃ العینی ؒ تحت قولہ:’’نھانا عن ذالک‘‘،یعني: عن الاختصاء، وفیہ تحریم الاختصاء لما فیہ من تغییر خلق اللہ تعالیٰ، و لما فیہ من قطع النسل و تعذیب الحیوان۔(عمدۃ القاري، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ:’’یا أیھا الذین اٰمنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم‘‘،18؍280، دار الکتب العلمیۃ)
اس حدیث سے خصی ہونے کی حرمت کا پتہ چلتا ہے، اور