اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
قدرتِ اخزاء کا ظہور نہ فرمائیے بلکہ قدرتِ عدم اخزاء کا ظہور فرمایئے یعنی رسوا کرنے والی صفت کا ہم پر ظہور نہ کیجئے بلکہ اس کی ضد اور عکس یعنی رسوا نہ کرنے والی صفت کا ہم پر ظہور فرمایئے کیونکہ اگر صفتِ اخزاء کا آپ نے ظہور فرمایا تو ہم ذلیل وخوار ہوجائیں گے اورہم آپ کے غلام ہیں اور ہر مالک اپنے غلاموں کی آبرو کا خیال رکھتا ہے جیسے اگر کسی کے نوکر کی عادت چوری کی ہے تو مالک اس پر کسی دوسرے کومقرر کرتا ہے کہ یہ ہمارا پرانا نوکر ہے ، دیکھو یہ چوری نہ کرنے پائے، اس سے ہماری بدنامی ہوگی کہ ہمارا ہوکر چوری کرتا ہے ، تو اے اللہ جب دنیا کے آقاؤں کی مخلوق رحمت کایہ حال ہے تو آپ دنیا بھر کی رحمت کے خالق ہیں ، آپ کی رحمتِ بے پایاں کوکیسے پسند ہوگا کہ آپ کے نالائق غلام رسوا ہوجائیں ۔ آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم درخواست کرتے ہیں ولاتعذبنیاور اے اللہ ! مجھے عذاب نہ دیجئے، یہاں بھی منفی میں مثبت درخواست پوشیدہ ہے کہ عذاب دینے کی قدرت آ پ میں موجود ہے تو عذاب نہ دینے کی بھی آپ کو قدرت ہے لہٰذا آپ کی رحمت سے فریاد ہے کہ عذاب نہ دینے کی قدرت کا مجھ پر ظہور فرمایئے، عذاب دینے کی قدرت کا ظہور نہ فرمایئے اور فانک علی قادر میں فاء تعلیلیہ ہے کہ چونکہ آپ مجھ پر پوری قدرت رکھتے ہیں ، میں تو آپ کی قدرت کے تحت ہوں اور جو تحت قدرت ہو اس کوعذاب دینا قادرِ مطلق کو کیا مشکل ہے جیسا چھوٹا بچہ باپ سے کہتا ہے کہ ابا میں تو پوری طرح آپ کے بس میں ہوں ، آپ میری پٹائی نہ کیجئے، تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کوجوش دلانے کے لئے یہ جملہ استعمال فرمایا تاکہ امت عذاب سے بچ جائے۔(خزائن شریعت وطریقت/۳۴۲-۳۴۴)