اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
نے امت کا کتنا اکرام فرمایا اورامت کی کتنی پردہ پوشی فرمائی کہ یوں نہیں فرمایا کہ اے اللہ میر ی امت کورسوا نہ فرما اور میری امت کو عذاب نہ دے، اگر آپ چاہتے تو یہ عنوان اختیار فرماسکتے تھے کیونکہ نبی معصوم ہوتا ہے وہ گناہ کر ہی نہیں سکتا اس لئے اس پر عذاب ممتنع اور محال ہے ، لیکن اس نبی رحمت پر کروڑوں کروڑوں صلوٰۃ وسلام ہوں جنہوں نے اپنی امت کی خطاؤں کو معاف کرانے کے لئے اس کی خطاؤں کوخود اوڑھ لیا اور اپنی ذات ِ گرامی کو پیش فرمایا کہ ا للہم لا تخزنی اے اللہ! مجھے رسوا نہ فرما اورمجھے عذاب نہ دے حالانکہ اس سے مراد یہی ہے کہ میری امت کو رسوا نہ فرما اور میر ی امت کوعذاب نہ دے۔ تو اللہم لا تخزنی اگرچہ منفی درخواست ہے لیکن اس منفی میں ایک مثبت درخواست بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ہمیں رسوا کرنے کی آپ کو قدرت ہے تو رسوا نہ کرنے کی قدرت بھی آپ کو ہے کیونکہ فلسفہ کا قاعدہ مسلمہ ہے کہ قدرت ضدین سے متعلق ہوتی ہے یعنی قدرت اس کو کہتے ہیں کہ جو کام کرسکے اس کونہ بھی کرسکے جیسے ہم ہاتھ اٹھاسکتے ہیں تو ہاتھ گرابھی سکتے ہیں ، اگر کوئی ہاتھ اٹھاسکے اور گرانہ سکے تو اس کا نام عربی زبان میں تشنج ہے اور اردو میں اکڑ جانا ہے ، فارسی میں کزار ہے اور انگریزی میں ٹٹنس(Tetanus)ہے ، تو اے اللہ! جب فلسفہ کا قاعدہ مسلمہ ہے اور فلسفہ آپ ہی کی مخلوق ہے ، آپ پرقاضی اور حاکم نہیں ہے ، فلسفہ کے حوالے سے توصرف ہم اپنی ادائیں حصولِ رحمت کے لئے پیش کرتے ہیں کہ اس کے قاعدہ سے جب ہمارے اخزاء پر آپ قادر ہیں توعدم اخزاء پر بھی قادر ہیں کیونکہ نعوذ باللہ آپ مجبور نہیں ہیں کہ رسوا کرنے پر قادر ہوں اور رسوا نہ کرنے پر قادر نہ ہوں ، پس جب دونوں چیزوں کی آپ کو قدرت ہے تو اپنی