اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
کردو، غریب ہیں ، اس طرح مسلمانوں سے قریب ہوجائیں گے۔ اسی بات پر خیال آیا کہ نو مسلموں کی تالیف قلب کے لئے یعنی ان کا دل خوش کرنے کے لئے ان کو ہدیہ دینا، خیریت پوچھنا ان سے محبت کرنا، سب عبادت ہے: ’’والمؤلفۃ قلوبہم‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا کہ جو نیا نیا اسلام لائے اس کی تالیف قلب کرو، اس کا دل خوش کرو؛ تاکہ وہ اسلام سے اور قریب ہوجائے، مولانا عبدالحمید صاحب نے عرض کیا کہ ماریشس میں بھی حضرت والا نے ایسا ہی کیا تھا، کشتی چلانے والا نیکر پہنے ہوئے ٹانگیں کھولے ہوئے تھا، آپ نے اس کو لنگی بھی دی اور ہدیہ بھی دیا، ہم لوگوں کو خیال بھی نہیں تھا کہ اس کو دیکھنا حرام ہے، آپ نے توجہ دلائی۔ (پردیس میں تذکرۂ وطن ۱۵۹) (۳) ایک نوجوان جس کے چہرہ پر داڑھی گھنی نہیں تھی، کل حضرت والا نے بوجہ تقویٰ ان کو پاؤں دبانے کو منع فرمادیا تھا، وہ حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا کہ آپ اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے خدمت نہ کرنے سے انشاء اللہ تعالیٰ زیادہ راضی ہوگا؛ کیوں کہ میں نے اللہ کے لئے احتیاطاً فیصلہ کیا کہ میرے نفس کو کوئی مزہ نہ آجائے، جیسے کوئی عمارت گرجائے اور کھنڈر رہ جائے اور کھنڈر بزبانِ حال کہہ رہا ہو کہ یہاں عمارت عظیم تھی تو اس کھنڈر کا دیکھنا بھی جائز نہیں ، جب گال داڑھی سے بھرجائے گا تو داڑھی سے دوستی گاڑھی ہوجاتی ہے، اس وقت دیکھنے میں حرج نہیں ، اور جب تک اللہ کی دوستی میں خلل واقع ہونے کا اندیشہ ہو اس وقت تک احتیاط کرو اور نہ دیکھو، اس لئے احتیاط کرتا ہوں ، اللہ کے لئے دیکھتا ہوں اور اللہ کے لئے نہیں دیکھتا، آنکھیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں ، جہاں انہوں نے فرمایا کہ دیکھو وہاں دیکھتا ہوں ، جہاں منع فرمادیا وہاں نہیں دیکھتا، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، اس کی توفیق کا شکر گذار ہوں ، جن کے گال بالکل صاف ہیں ان کی طرف دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میرا نفس شرارت نہ کرجائے، شرارت دل میں ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ جو شیخ ہوتا ہے وہ زبان