اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
(۱) حضرت کے بھانجے محمد احمد صاحب کا بیان ہے کہ بچپن کے زمانے میں حضرت نے نامحرم عورتوں سے پردہ شروع کردیا ، جب کوئی عورت آتی تو حضرت دوسرے کمرے میں چلے جاتے، حضرت کی والدہ صاحبہ کی خدمت میں ایک ہندو عورت آیا کرتی تھی جو پڑوس ہی میں رہتی تھی، ایک بار اس نے حضرت کے متعلق پوچھا کہ بھیا کہاں ہیں ؟ حضرت کی والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ عورتوں سے پردہ کرتے ہیں تو اس عورت نے کہا کہ اتنا چھوٹا بچہ اور ابھی سے پردہ کرتا ہے میں ان کا پردہ چھڑاؤں گی، ایک دن حضرت والا مسجد سے نماز پڑھ کر گھر واپس آرہے تھے تو اس عورت نے دیوار کی آڑ لے کر بہانے سے کہا کہ بیٹا ذرا یہ خط پڑھ کر سنا دو، جب حضرت نے خط لینا چاہا تو اس نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ کاہے پردہ کرتے ہو ابھی تو بچے ہو، حضرت اس سے ہاتھ چھڑا کر روتے ہوئے گھر آئے اور والدہ صاحبہ سے کہا اب میں گھر سے باہربھی نہیں جاؤں گا۔(فغان اختر/۲۳۵) (۲) افریقہ میں سمندر کے کنارے اکثر لوگ نیم برہنہ لباس میں سن باتھ لیتے ہیں ، دور کنارے پر ایسا شبہ ہوا کہ شاید وہاں یہ لوگ ہوں ، تو حضرت والا نے متنبہ فرمایا کہ اُدھر نہ دیکھو کیوں کہ ناف سے گھٹنے تک ستر ہے، جس کا دیکھنا حرام ہے، چاہے مسلمان ہو یا کافر ہو، بنگلہ دیش میں مچھلی والوں کو مچھلیاں پکڑنے کے لئے بلایا گیا جو کافر تھے، وہ لنگوٹ باندھے ہوئے مچھلیاں پکڑ رہے تھے اور وہاں کے سب علماء بھی دیکھ رہے تھے، میں نے کہا کہ یہ کافر تو ستر چھپانے کے مکلف نہیں ہیں ، ٹانگ کھولنا ان کے لئے گناہ نہیں ہے؛ کیوں کہ کافر ہیں ، اور ایمان ہی نہیں لائے ہیں ، تو جب کل نہیں ہے تو جز کا کیا تلاش کرنا؛ لیکن مسلمانوں کا ان کے کھلے ہوئے ستر کو دیکھنا جائز نہیں ہے، تو کہنے لگے کہ پھر کیا کریں ؛ کیوں کہ یہی لوگ تو مچھلی کا شکار جانتے ہیں ، میں نے کہا کہ ان کو ایک ایک لنگی تھوڑی دیر کے لئے دے دو کہ ناف سے گھٹنہ تک چھپالیں ، جب شکار کرچکیں تو اپنی لنگی واپس لے لو، اگر توفیق ہو تو ان کو ہدیہ