اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
ہوگیا ہے ، لیکن کسی کی مصیبت سن کر ہاتھی کو رونا نہ آیا، پھر ایک مولوی صاحب آئے جب انہوں نے ہاتھی کے کان میں کچھ کہا تو ہاتھی زار وقطار رونے لگا، لوگوں نے کہا کہ مولوی صاحب آپ نے اس کے کان میں کیا کہہ دیا کہ یہ زار وقطار رونے لگا، مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے اسے اپنی تنخواہ بتادی، بس اتنی تھوڑی سی تنخواہ سن کر ہاتھی رونے لگا، کہ بے چارے کا گزارہ کیسے ہوتا ہوگا، ہاتھی تو روپڑا مگر کمیٹی والوں کے آنسو نہیں نکلتے، اللہ ان کے دل میں بھی رحم ڈالے۔‘‘ ( فغان ا ختر/۱۱۶) ایک بار حضرت کی خدمت میں دو نوجوان آئے جو چہرے مہرے اور وضع قطع سے کسی کالج یا یونیورسٹی کے طالب علم لگتے تھے، حضرت والاؒ نے ان کی تربیت کرتے ہوئے انھیں فرمایا کہ: ’’ تم اپنے سر کے بالوں کو استرے سے صاف کرادو، تمہارا سر ایسے لگے گا جیسے کسی مرنے والے کی قبر پر لوٹا پڑا ہو، جب تم ایسا کرلوگے تو پھر کوئی بھی حسینہ اور دوشیزہ تمہاری طرف منہ پھیر کرنہیں دیکھے گی، اس طرح تم بہت سے گناہوں سے بچ جاؤگے۔‘‘(فغان اختر/۱۱۹) متعدد اہل علم کا یہ تأثر ہے کہ حضرت والا کی طبیعت میں عجیب خوش مزاجی کا عنصر تھا، اپنے قریبی اہل تعلق سے ہر ملاقات پر کوئی نہ کوئی ایسی خوش طبعی کی بات ضرور فرما دیتے تھے جس سے سننے والوں کی طبیعت کئی کئی دن تک باغ و بہار رہتی تھی۔ محترم جناب حافظ محمد اسحاق ملتانی صاحب( مدیرماہنامہ محاسن اسلام ملتان) کا بیان ہے کہ: ’’ایک مرتبہ حضرت مولانا شاہ حکیم صاحب نور اللہ مرقدہ کی مجلس