اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
کی صحبت میں سترہ سال رہا، ان کے انتقال کے بعد حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کی صحبت میں ابھی تک ہوں ، پچاس پچاس دن ان کی صحبت میں رہا ہوں ، اب بھی باقاعدہ خط وکتابت کرتا ہوں ، ہر ہفتہ ایک خط بھیجتا ہوں ، یہاں (افریقہ) آنے سے چھ سات دن پہلے ایک خط کراچی سے بھیجا تھا، اور یہاں آتے ہی دوسرا خط چلا گیا اور خط میں کیا مضمون ہوتا ہے؟ کہ میں آپ کی دعاؤں کا اور توجہ کا سراپا محتاج ہوں ؛ تاکہ شیخ یہ نہ سمجھیں کہ اب اختر کو لوگ بہت ماننے لگے تو مجھ کو بھول گیا، یاد رکھو! شیخ کٹ آؤٹ ہے اگر شیخ اپنی توجہ کا کٹ آؤٹ ہٹالے تو مرید چاہے کیسا ہی ہو گیٹ آؤٹ ہوجائے گا، اس لئے شیخ کا احسان کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ مجھ کو تین دریاؤں کا پانی ملا ہے، دریائے مولانا شاہ محمد احمد صاحبؒ، دریائے مولانا شاہ عبدالغنی صاحبؒ، دریائے مولانا شاہ ہردوئی دامت برکاتہم، جب دریا ملتے ہیں تو پاٹ چوڑا ہوجاتا ہے، سب میرے بزرگوں کا فیض ہے، میرا کوئی کمال نہیں ، بس اللہ کی رحمت کا سہارا ہے، اپنے اعمال کا کوئی سہارا نہیں ہے، اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ بخش دیا جاؤں گا، اپنے عمل سے بخشش نہیں ہوگی، یہ تحدیث نعمت ہے ’’ولا فخر یا ربي‘‘کوئی فخر کی بات نہیں مگر یہ اللہ کا فضل ہے۔ امید ہے کہ عالم میں اگر آپ تلاش کریں تو اتنی صحبت پانے والے کم ملیں گے، کوئی چھ مہینہ ،کوئی سال بھر، کوئی پانچ سال، مگر تینوں بزرگوں کی صحبت ملاکر بہت عرصہ ہوجاتا ہے، شیخ کی نعمت بہت بڑی نعمت ہے‘‘۔ (پردیس میں تذکرۂ وطن ۲۴-۲۶)