اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
عارف باللہ، حضرت اقدس مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتابگڈھی کی بارگاہ میں پہنچادیا،حضرت والا جب پہلی بار حضرت پرتابگڈھیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت حضرت پرتابگڈھی علماء کے مجمع میں انتہائی دردکے ساتھ یہ اشعار پڑھ رہے تھے ؎ دلِ مضطرب کا یہ پیغام ہے ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے تڑپنے سے ہم کو فقط کام ہے یہی بس محبت کا انعام ہے جو آغاز میں فکرِ انجام ہے ترا عشق شاید ابھی خام ہے پہلی ملاقات نے ہی محبت، مناسبت اور عقیدت پیدا کردی، حضرت والا نے مستقل حاضری شروع فرمادی، طبیہ کالج سے فارغ ہوکر روز شام ۵؍ بجے سے رات۱۱؍ بجے تک حضرت کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتابگڈھی کے بارے میں اکابر اہل علم کا یہ تأثر معروف ہے کہ وہ سلسلۂ نقشبندیہ کے سب سے قوی النسبت بزرگ تھے، اور قادر الکلام شاعرِ درد تھے، ان کے ہاں نسبت اشعار سے منتقل ہوتی تھی، حضرت والا نے ان کے فیض صحبت سے خوب خوب حظ اٹھایا، اور انہیں مجالس کی برکت سے حضرت کو اعلیٰ نفیس ذوقِ شعری میسر آیا، حضرت پرتابگڈھی کا مجموعۂ کلام ’’عرفانِ محبت‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا اور ہمارے حضرت والا کا مجموعۂ کلام ’’فیضانِ محبت‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ حضرت پرتابگڈھی کو حضرت والا سے بے حد محبت تھی، حضرت والا اگر کبھی رات میں قیام فرماتے تو حضرت موصوفؒ بھی اپنا بستر گھر سے باہر خانقاہ میں لے آتے، اور فرماتے کہ