اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
میں آپ کی بڑی ہمشیرہ آپ کو گود میں لیکر محلہ کی مسجد کے امام جناب حافظ ابوالبرکات صاحبؒ (جو حضرت تھانویؒ کے مجازین میں تھے) کے پاس دعا کے لئے لے جاتی تھیں ، حضرت کا بیان ہے کہ: ’’اس وقت بھی اللہ کی محبت میں مجھے مسجد کے در ودیوار اور مسجد کی مٹی بہت اچھی معلوم ہوتی تھی اور حضرت حافظ صاحب سے مجھے اللہ کی خوشبو محسوس ہوتی تھی اور دل میں آتا تھا کہ یہ اللہ کے پیارے ہیں ‘‘۔ درجہ چہارم تک اردو تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت نے اپنے والد ماجد سے دارالعلوم دیوبند جانے کی درخواست کی؛ لیکن والد صاحب نے مڈل اسکول میں داخل کرادیا، حضرت کا دل اسکول کی تعلیم میں نہیں لگتا تھا؛ لیکن والد صاحب کے اصرار پر بادل ناخواستہ وہ تعلیم حاصل کرتے رہے، اسی دور میں جب کہ حضرت بالغ بھی نہیں ہوئے تھے، گھر سے دور جنگل کی ایک مسجد میں دیر دیر تک عبادت کا معمول اپنایا، مسجد سے قدرے فاصلے پر کچھ مسلمان آباد تھے، حضرت نے ان پر محنت کی اور خلوص سے انہیں نماز کی دعوت دی، بالآخر حضرت کی کوششوں کے نتیجہ میں وہ سب نمازی بن گئے، اور مسجد میں باضابطہ اذان وجماعت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دعائے سحر اور تہجد کا اہتمام وذوق حضرت کو بچپن ہی سے حاصل تھا، اخیر شب میں ہی مسجد میں تشریف لے جاتے اور فجر تک ذکر ودعا اور گریہ وبکاء کا سلسلہ جاری رہتا، مسجد آبادی سے باہر تھی، اس لئے والد صاحب کو خطرہ محسوس ہوا، چناں چہ انہوں نے بڑے پیار سے حکم دیا کہ گھر ہی میں تہجد پڑھا کریں ۔ جماعت ہفتم تک حضرت نے عصری تعلیم حاصل کی، آپ کا طبعی رجحان چوں کہ شروع سے علوم اسلامی کی طرف تھا، چناں چہ اسی دوران فارسی زبان کی تعلیم بھی حاصل کرلی،