ورجحانات ان نئی تحقیقات سے بہت کچھ مختلف تھیں ، بلکہ بعض باتوں میں وہ الٹی سمت پر جارہے تھے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھے لکھے نہیں تھے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فرد بشر کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا اس کے باوجود ایسے کلام کو پیش کرنا جس میں قیامت تک ظاہر ہونے والی نئی تحقیقات کے مبادی ہوں ، تجربان ومشاہدات کے نچوڑ ہوں اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ کلام کسی انسان کی تخلیق نہیں ہے بلکہ اس جبار وقہار کا کلام ہے جو زمین وآسمان کا خالق اور تمام سائنسی تحقیقات کا مکون ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن کا اصلی مقصد سائنس کی تحقیق کو بتلانا یا جغرافیائی معرکہ آرائی کرنا نہیں ہے انکا تو مطمح نظر صرف شرعی احکام کو بتلانا، لوگوں کو آخرت کی ترغیب دینا اور جنت وجہنم کی منظر کشی کرنا ہے البتہ کہیں کہیں ایک دو لفظ یا ایک دو جملے میں اس اندازسے آج کی سائنسی تحقیقات بھی آگئیں ہیں کہ ایسے عظیم الشان شئی کے خالق کو آخر کیوں نہیں مانتے ہو یا ایسی باریک شئی کے پیدا کرنے والے خدا کے سامنے آخر سجدہ ریز کیوں نہیں ہوتے ہو، قرآن کریم تحقیقات کے ذریعہ اُس کے خالق کی طرف انسانوں کو متوجہ کرتا رہتا ہے اور سائنسی تحقیقات صرف ضمنی طور پر آجاتی ہیں تاہم اُن کے الفاظ کی تہ مین ایسے ایسے حیرت انگیز حقائق چھپے ہوتے ہیں کہ صدیولں تحقیقات کے بعد جب اُن پر سے پردہ اُٹھتا ہے تو لوگ حیرانی کے ساتھ کہتے ہیں کہ اس آیب کو ہم بار بار پڑھتے تھے لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا کہ اتنی عظیم حقیقت اس آیت میں چھپی ہوئی تھی جس سے ہم اپ تک نا آشنا تھے۔ چنانچہ سائنسی تحقیقات کے آشکارا ہونے کے بعد لوگں نے جب قرآنی آیات کا مطالعہ کیا تو وہ حیرانی کے ساتھ کہنے لگے کہ یہ تحقیقات تو قرآنی آیتوں میں پہلے سے موجود تھیں اس کی اطلاع تو خالق کائنات نے انسانوں کو پہلے ہی سے دی تھی، یہ الگ بات ہے کہ اس کی تحقیقات ہمارے سامنے نہیں تھیں اس لئے ہماری فہم اس کی گہرائی تک رسائی نہیں کرپاتی تھی۔
مندرجہ ذیل کتاب میں دیکھیں گے کہ قرآن جس طرح فصاحت وبلاغت میں عظیم الشان اور معجزہے اسی طرح سائنسی تحقیقات میں بھی وہ معجز ہے، جس طرح وہ بلاغت میں مافوق البشر کلام ہے سائنسی تحقیقات میں بھی وہ مافوق البشر ہی ہے اس کے عجائب زمانہ ماضی میں بھی ختم نہیں ہوئے اور قیامت تک اس کے عجائب ختم نہیں ہوگے۔ زمانہ اس کو جس جانب سے بھی کریدے گا