قوم کا طرۂ امتیاز سمجھتے، قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تو انھوں نے اس میں بھی اسی صفت بلاغت کو ڈھونڈنا شروع کیا کہ اگر یہ کلام خداوندی ہے تو اس میں ہمارے ذوق کے مطابق فصاحت وبلاغت بھی ہے یا نہیں ؟ انھوں نے دیکھا کہ قرآن کریم کا پایا اس معاملے میں اتنا بلند ہے کہ قیامت تک آنے والا کوئی بھی انسان اس مقام تک رسائی نہیں کرسکتا اور ایک سورت بھی اس جیسی نہیں لاسکتا، قرآن کا چیلنج پوری انسانیت کے لیے اس وقت بھی تھا کہ تمھیں شک ہے کہ یہ کلام خداوندی نہیں تو ساری مخلوق میٹنگ کرکے اس جیسی ایک سورت لے آؤ اور آج بھی وہ چیلنج اسی آن وبان کے ساتھ باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا، لوگ اس کے مقابلے پر لانے کے لیے سر پٹک کر رہ جائیں گے لیکن قیامت تک اس کا ثانی نہیں لاسکیں گے، یہی وہ کلام معجز ہے کہ دنیا کو اپنے مقابل کلام لانے سے عاجز کررکھا ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں فصاحت وبلاغت کا سیلاب تھا اور ابھی کچھ صدیوں سے سائنسی تحقیقات وتجربات کا سیلاب امنڈ آیا ہے اور وہ اس میدان میں حیران کن ترقیات کے ساتھ پیش رفت فرمارہے، کوئی فضائوں کے دوش پر سفر کررہا ہے کوئی سمندر کا سینہ چاک کررہا ہے تو کوئی رَو اور کرنٹ پر اپنی حکمرانی کا سکہ جمارہا ہے، مجموعی طور پر ان لوگوں کا ایک رخ قرآن پاک کی طرف بھی ہے کہ اگر یہ خالق ارض وسما کا کلام ہے تو اس میں ہماری تحقیقات کے بارے میں کیا اشارہ ہے، کیا بائبل کی طرح یہ بھی ہماری تحقیقات کا انکار کرتا ہے، رد کرتا ہے یا یہ کلام ہماری موافقت کرتا ہے اور قدم بقدم ہماری رہنمائی کرتا ہے، فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے تو یہ کلام معجز ہے ہی، کیا سائنسی اعتبار سے بھی یہ معجز ہے؟ کیا ایسا ہے کہ جن حقائق تک ہم صدیوں تجربات کے بعد پہنچے ہیں ان کے بارے میں آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن نے ان کی نشان دہی کردی ہے اور ایک چھـٹے سے جملے میں تمام حقائق کو سمولیا ہے، قرآن جس طرح فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے معجز ہے سائنسی تحقیقات کے اعتبار سے بھی ویسا ہی معجز وبلیغ ہے اور اس بحر زخار میں میں بھی ان کی شان اعجاز ویسی ہی درخشاں اور تابندہ ہے۔
آج سے چودہ سو سال پہلے جب کہ ان نئی تحقیقات کا دور دور تک نشان نہیں تھا لوگ بجلی اور کرنٹ کے کرشموں سے واقف نہیں تھے، عرب کے بدو اس سے بھی ایک قدم آگے تھے کہ ان کو صحرا نوردی اور گلہ بانی کے علاوہ کسی تحقیقات سے واقفیت نہیں تھی اس زمانے کی روایات