علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
وَضْعُ الْاَشْیَاءِ فِیْ مَوَاضِعِھَا 31؎ہر چیز کو اس کے محل میں رکھنا۔ جو اعضا جس کام کے لیے بنائے گئے ہیں ان اعضا کو اسی کام میں استعمال کرو۔ تونبوت کے مقاصدمیں سے ایک مقصد مکاتب کاقیام ہے، جہاں قرآنِ پاک کی قرأت مع الصحت سکھائی جائے۔ اور دوسرا مقصد دارالعلوم اور مدارسِ دینیہ کا قیام ہے، جہاں کتاب اللہ کی تفسیر پڑھائی جائے اور وہ معانی بیان کیے جائیں جو سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کو سِکھائے اگرایسا نہ ہوتا تو ضلالت و گمراہی کے مچھر، کھٹمل سب اس میں گھس جاتے۔ آج ان ہی علماء کی برکت سے قرآنِ پاک کے الفاظ و معانی کی حفاظت ہو رہی ہے۔ بعثتِ نبوت کے مقاصد میں تعلیمِ کتاب کے ساتھ حکمت کی تعلیم دینا بھی ہے، یعنی ایسے علوم و معارف بیان کرنا جن سے انسانیت کی تکمیل ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت میں اضافہ ہو۔ تو قرآنِ پاک کے مکاتب بھی نبیوں والا کام کر رہے ہیں جہاں قرأت و تجوید سکھائی جاتی ہے۔ دارالعلوم بھی نبیوں والا کام کر رہے ہیں جہاں قرآنِ پاک کی تفسیر بیان کی جاتی ہے ، جہاں اﷲ والے علماء تفسیر و معانی میں غوطہ لگا کر بحرمعرفت کے بڑے بڑے علوم و معارف بیان کرتے ہیں جسے حکمت کہتے ہیں اور یہ حکمت اہل اللہ کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ اللہ کرتے ہیں۔ وارِد اُن ہی کو ہوتا ہے جن کا وِرد ہوتا ہے۔ مَنْ لَّا وِرْدَ لَہٗ لَا وَارِدَ لَہٗ جس کے اَوراد و وظائف کچھ نہیں ہوتے اُس کو وارِد و اِلہام بھی نہیں ہوتا، اس کے دل میں آسمان سے علوم نہیں آسکتے۔ وہ کتابوں سے تو بیان کر سکتا ہے، لیکن اس کا علم ایسا ہی ہوگا کہ جتنا پکاؤ اتنا کھاؤ، جتنی کتاب دیکھی اتنا ہی بیان کردیا۔ حضرت شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ علمائے ظاہر کا علم ایسا ہے جیسے ٹینکر بلا کرٹنکی بھرلی، جب پانی ختم ہوگیا تو پھر ٹینکر ڈلوالیا اور اللہ والوں کا علم ایسا ہوتا ہے جیسے زمین سے پانی کا سوتا نکل آئے اور ہر وقت پانی جاری رہے، تو اللہ والوں کے علم کا پانی ہر وقت جاری رہتا ہے،کبھی ختم نہیں ہوتا، ان کی ساری کتابیں چھین لو اور ان سے کئی سال تک بیان نہ کراؤ، لیکن جب بھی بیان کریں گے تو _____________________________________________ 31؎روح المعانی:387/1،البقرۃ(129)،داراحیاء التراث، بیروت