علم اور علماء کرام کی عظمت |
ہم نوٹ : |
|
لفظ کے جو معنیٰ اللہ تعالیٰ نے نبی کو سِکھائے وہ معنیٰ نبی صحابہ کوسِکھائیں،تاکہ محض لغت سے ترجمہ کرکے غلطی میں نہ مبتلا ہوجائیں،چناں چہ: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا 24؎اس کے بعد ہے یُصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ تو اس کالغت سے اگر ترجمہ ہوگا تویہ ہوگا کہ اﷲ تمہارے اعمال کی اصلاح کردیں گے،مگر صحابہ کہتے ہیں کہ یہ ترجمہ ہمیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سکھایا، بلکہ اس کا ترجمہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں یہ سکھایا یَتَقَبَّلْ حَسَنَاتِکُمْ 25؎یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری نیکیوں کو قبول فرمائیں گے۔ کہاں اَصْلَحَ یُصْلِحُ بابِ اِفعال اور کہاں تَقَبَّلَ یَتَقَبَّلُ بابِ تفعّل،معنیٰ کتنے بدل گئے!اس لیے محض لغت سے ترجمہ کرنا حرام ہے اور اس میں بہت ہی سخت بد عقیدگی کا خطرہ ہے۔ لہٰذا جو ترجمہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بتایا ہے جس کو صحابہ نے نقل کیا اور صحابہ سے مفسرین نے نقل کیا وہی سب سے مستند ہے۔ اسی آیت کے ترجمہ میں دیکھ لیں کہ اس کے معنیٰ کتنے بدل گئے ہیں۔ عربی گرامر سے یُصْلِحْ لَکُمْ کا کیا ترجمہ کرو گے؟ کہ اللہ ہمارے اعمال کی اصلاح کردے گا،حالاں کہ صحابہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کےمعنیٰ ہیں یَتَقَبَّلْ حَسَنَاتِکُمْ تمہاری نیکیوں کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے۔ اِسی طرح وَ النَّجۡمُ وَ الشَّجَرُ یَسۡجُدٰنِ 26؎کے کیا معنیٰ ہیں؟عام لغت میں نَجْم کے معنیٰ ستارہ کے آتے ہیں، تو اس کا ترجمہ لغت سے جو کرے گا وہ یہ کرے گا کہ ستارے اور درخت خدا کو سجدہ کرتے ہیں،حالاں کہ سرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نَجْم کے جو معنیٰ بتائے ہیں اور جس کو صحابہ نے نقل کیا کہ یہاں نَجْم کے معنیٰ ستارہ نہیں ہے، بلکہ نَجْم اُس پودے کو کہتے ہیں جوزمین پر لیٹے ہوتے ہیں اور زمین پر پھیلتے ہیں، جن کے ساق یعنی پنڈلی نہیں ہوتی، تنا نہیں ہوتا، بے تنے کے درخت کو نجم کہتے ہیں: _____________________________________________ 24؎الاحزاب : 70 25؎مرقاۃ المفاتیح:310/10 ،باب اعلان النکاح، المکتبۃ الامدادیۃ 26؎الرحمٰن : 6