اسلام میں روحانیت:
حق کو باطل سے الگ یوں عقلا کرتے ہیں
جس طرح پھول کو کانٹوں سے جدا کرتے ہیں
۱۵؍ نومبر ۱۹۲۳ء کو پنڈت اندرناتھ صاحب نے آریہ سبھا میں بیان کیا کہ عیسوی اور مذہبِ اسلام ایک عمارت کے مانند ہیں جو کبھی مسمار ہو کر رہے گی اور آریہ مذہب گنگا جمنا کی طرح ہے جو کبھی برباد نہیں ہوسکتا۔ میں پہلے یہ دیکھوں گا کہ دنیا کے تمام مذاہب کی کتابیں اور اُن کے عالم، اسلام اور بانیٔ اسلام کے بارے میں کیا لکھتے ہیں۔
سائنس کی نیرنگیاں، اجرام فلکی کا انکشاف، کا لبد انسانی کا علم اور طرح طرح کی کلوں کی ایجاد، یہ سب باتیں مادی قوت سے تعلق رکھنے والی ہیں اور روحا۔ّنیت ماد۔ّیت سے افضل ترین ہے۔ جب کبھی رُوحانیت معجزہ اور کراُ۔ّمت کے رنگ میں چمکی تو فلسفی حکیم اور فاضل ششدر و حیران رہ گئے، اور ان کی عقلیں اس گتھی کو سلجھانے میں ناکامیاب رہیں۔ انھیں حاملانِ قوت رُوحانی کے گلے کی آواز پر و حوش و طیور اور پانی روانی چھوڑ دی، ہاتھوں میں عصا نے اژدہائے مہیب کی صورت اختیار کی، قم باذن اللّٰہ کہنے پر مردے جی اُٹھے، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوئے اور کنکروں اور پتھروں نے بات چیت کی۔ یہ اسی قوت کا ادنیٰ کرشمہ تھا جس نے ظالموں کو رحم اور بخیلوں کو کرم کا سبق دیا۔ وحشیوں کو تاجدار بنایا۔ اور حکما فلاسفروں اور تاریک دل رکھنے والوں کو ماد۔ّیت سے علیحدہ کرکے روشنی دکھائی۔ اور اس روحانی گروہ کا سردار وہ ہے جس کو ۔ُخلق اللہ محمدﷺ اور احمدﷺ کے نام سے پکارتی ہے۔ چناںچہ اسی مبارک ہستی کی صفت زبور، باب: ۴۵ میں بایں الفاظ موجود ہے:
’’تو صداقت کا دوست اور شرارت کا دشمن ہے۔ بادشاہ کی بیٹیاں تیری عزت والیوں میں ہیں۔ میں ساری پشتوں کو تیرا نام یاد دلاؤں گا۔ بس سارے لوگ تیری ستایش ابد الآباد تک کریں گے‘‘۔
حضرت سلیمان ؑ نے اپنی کتاب غزل الغزلات، باب: ۱۵ میں اسی برگزیدہ ہستی کا سراپا بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’میرا محبوب گندم گوں ہزاروں میں سردار ہے۔ اس کا سر ہیرے کا سا چمکدار ہے۔ اس کی زلفیں مثل کوے کے کالی ہیں‘‘۔ اور پھر فرماتے ہیں: ’’قدہٖ کالسبانون (اُس کا قد سرو سا باحور کا رازیم (اور چہرہ چودھویں کے چاند جیسا ہے) و ۔ّکلو محمدیم (اور وہ بعینہ محمدﷺ ہیں)‘‘۔
حضرت موسیٰ ؑ نے خبر دی ہے:
’’اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ انھوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا۔ میں اُن کے لیے اُن کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی