سیاح تھے۔ سنسکرت کی ایک پرانی تاریخ میں وہ واقعہ ملا جس کو لالہ ہنسراج بی۔ اے اسلام کے پھیلنے کا سبب ٹھہراتے ہیں اور اس کو وہ اپنی رپورٹ میں لکھ چکے ہیں، اسی کا ترجمہ مجھ کو یاد پڑتا ہے آگرہ سے جو اخبار ’’مبلغ‘‘ یا ’’تبلیغ‘‘ نکلتا تھااس میں بھی چھپ چکا ہے، اس حوالہ میں بھی لکھا تھا کہ ساحل مالا بار کے راجہ صاحب نے چاند کا دو ٹکڑے ہونا دیکھا تھا۔
رات کے وقت ایسے واقعہ کے پیش آنے سے جو گھبراہٹ ہوئی اس کے باعث اپنے خاص الخاص مصاحبوں کو جس میں ایک مرتاض اور باخدا پنڈت بھی تھا بلوایا اس نے اپنے عقیدہ کے مطابق بعض پیشین گوئیاں بعثتِ حضورِ انور، سرخیلِ انبیا، سر ِدفتر ِپیغمبراں، راعی بندگانِ خدا، کمبل پوش حراء، محمد مصطفیﷺ کی بابت بیان کیں۔ راجہ نے دوسرے دن دربار کیا۔ اعیانِ حکومت اور سردارانِ رعایا کو بلایا اور واقعہ بیان کرنے کے بعد سات آدمیوں کو مکہ معظمہ تصدیق رسالت کے لیے روانہ کیا۔ وہ لوگ یہاں سے گئے جس کے بعد جب وہ لوگ واپس آئے تو راجہ مسلمان ہوا اور اس کے ساتھ اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ہندوستان میں کئی جگہ یہ واقعہ پیش آیا تھا اور اس کی خبریں پرانے حوالجات میں ملتی ہیں۔
1 (1 (یج) منقول از اخبار ’’مشرق‘‘ گور گھپور ۱۳؍ اپریل ۱۹۲۷ء
بابو بپن چندر پال کے خیالات
وید اور شاستر میں گائے کشی کا تذکرہ: ویدوں میں قربانی گائے کا اکثر ذکر آیا ہے۔ گھوڑے کی قربانی (اسومیدہ یا جنہ) اور گائے کی قربانی (گئو میدھ یا جنہ) کا تذکرہ نہایت وضاحت سے کیا گیا ہے۔ ’’سرادت‘‘ کی کتابوں میں جن میں تمام ہندوؤں کے مذہبی قوانین ہیں اس کی ناقابلِ انکار شہادتیں موجود ہیں کہ مقدس سے مقدس برہمن بھی گائے کا گوشت کھاتے تھے۔ اس میں یہ صاف الفاظ ہیں کہ جب راجا پرجا میں سے کسی کے یہاں جائے تو اس کو لازم ہے کہ راجا کے سامنے گائے کا تازہ گوشت پیش کرے۔ یہی حکم گرو اور پردہت کے لیے بھی ہے کہ جب وہ تشریف لائیں تو گائے کے گوشت سے ان کی تواضع کی جائے۔ نیز یہ بھی حکم ہے کہ جب داماد ایک سال کے بعد سسرال میں آئے تو سسرال والوں کا فرض ہے کہ گائے کے گوشت سے اس کی خاطر مدارات کریں۔