ہوگی، کچھ دیا کرو، نہیں تو لڑو، ورنہ ہماری بات یاد نہ رکھے گا) خدا کا نام ہی ان کے پاس جائے گا۔ ایک اترے گا گناہوں کا کاٹنے والا۔
نوٹ: یہ مضمون مزید تحقیق کو مقتضی ہے۔ اشرف علی
1 (1 (لز) منقول از ’’مشرق‘‘ گورکھ پور مؤرخہ ۱۵؍ اگست ۲۹ء
کاش میں مسلمان ہوتی: (ایک عیسائی مِس مار گریٹ کا مرتے وقت بیان) جرمنی کے کروڑ پتی تاجر شیلڈوک مارگریٹ کی وفات ایسی حالت میں ہوئی جب کہ وہ تین وقت کے فاقہ سے بیماری میں اپنے تنگ و تاریک کمرے میں ایڑیاں رگڑ رہی تھی۔ اس نے پادری اور کئی دوسرے آدمیوں کے سامنے ایک سنسنی خیز بیان دیا۔ اور وہ یہ کہ ایک برس سے اسے اس کے والدین نے اس لیے گھر سے نکال دیا کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق ایک آدمی سے شادی کرنے کو تیار نہ تھی۔ اور دوسرے کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی۔ اس کے گھر سے نکلنے کے بعد اس کے منگیتر نے بھی بے وفائی کی اور اسے غربت کے انتہائی درجہ سے مقابلہ کرنا پڑا۔ وہ عیسائی قانون کی رُو سے کوئی حصہ باپ کی جائیداد سے نہیں لے سکتی تھی جو اس سال میں مرگیا تھا، سب ملکیت کا مالک بڑا بھائی ہوگیا ہے۔ کاش! میں مسلمان ہوتی تو آج اس طرح ایڑیاں رگڑ کر نہ مرتی، کیوںکہ مجھے باپ کی جائیداد میں ورثہ کا حق ہوتا۔ عیسائی مذہب میں لڑکی کے لیے کوئی حقیقی پوزیشن نہیں جو کچھ پوزیشن بتائی جاتی ہے یہ محض دکھاوا ہے۔ اس کے بعد مس مار گریٹ نے نہایت غصہ میں پادری کو ڈانٹا اور کہا: تو خبیث یہاں سے چلا جا! میں تجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی، میں پھر کہتی ہوں کہ کاش! میں مسلمان ہوتی۔ اس کے بعد مس مارگریٹ نے دم توڑ دیا اور تھوڑے سے بحث و مباحثہ کے بعد اس کی تجہیز و تکفین عیسائیوں کی طرح ہی کردی گئی۔ اس واقعہ سے اس کے بھائیوں پر بہت زیادہ اثر پڑا۔
1 (1 (لح) منقول از ’’الامان‘‘ ۱۵؍ دسمبر ۲۹ء
مسلمانانِ ہند کے غیر اسلامی رسوم
(سرٹامس ڈبلوارنالڈ سی۔ آئی۔ ایف۔ بی۔ اے۔ ذی لٹ)