وَیْد کی گواہی: مؤلف ’’کشف الاستار‘‘ مولوی محمد حسن نے (صورتاً) ہندو بن کر بنارس میں اور اجودھیا میں ایک زمانہ تک تحصیلِ علوم وید کی اور بڑے بڑے پاک نفس برہمنوں اور خدا رسیدہ سادھوؤں کی صحبت حاصل کی۔ انھوں نے دیکھا اکثر جنگلوں اور پہاڑوں میں تارک الدنیا جوگی کسی بڑی ہستی اور کسی تعریف کی ہوئی ذات کی یاد میں بھجن گاتے اور اس کی جے مناتے، چناںچہ جب انھوں نے اترکھنڈ کا پاٹ کیا تو انھیں یہ مضمون ملا:
۱۔ ’’وہ مخلوق سے نہیں ڈرے گا اور نہایت شجاعت اور عرفان والا ہوگا اور اس کا نام ’’مہامت‘‘ ہوگا۔ 1 (1 مہادیوجی)
۲۔ ان (مہامت) کی وضع کو دیکھ کر لوگ حیران رہیں گے۔ نئی طرح کا اُن کا احوال دیکھیں گے اور جو پوجا ان کی قوم کے لوگ کریں گے وہ نہ کریں گے اور اپنی قوم سے کہیں گے کہ مجھ کو اس قدر ایک ذات کا جس کا شریک نہیں ہے یہ حکم ہے کہ اس طرح کی بے معنی پوجا مت کرو اور میں سوائے اللہ کی ذات پاک کے اور کسی طرف رجوع نہیں کرتا ہوں، تم میری تابعدادی کرو اس وجہ سے ساری قوم ان سے جدا ہوجائے گی۔ 1 (1 مہادیوجی)
پھر مولوی محمد حسن اپنی کتاب ’’کشف الاستار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’اتھریں وید‘‘ میں اللہ کا لفظ پایا جاتا ہے اور حضور محمد عربیﷺ کا نام نامی بھی ’’احمد و محمد‘‘جس کا اشارہ ’’مہامت‘‘ میں ہے موجود ہے۔ رکھ کھنڈ میں یوں آیا ہے: ’’سری قوام سر سمودائی وکالی کمائی احمد ناروبائی‘‘۔
یجرو یدمیں بھی یوں دیکھا گیا ہے کہ
’’الانک نج الوجان محمد الانک کرمان جان تبیجان نند مافی جان جان نما ہی جیو سان کجان‘‘۔
اَنْ کہی یا اَنْ کہنی کیا چیز ہے؟ سنا جاتا ہے کہ جب پرانے زمانہ کے ہندوؤں کو نزع کے عالم میں زمین پر اُتار کر لٹا دیتے تھے اور روح کے پرواز ہونے میں مادی علائق سے کشاکش شروع ہوتی ہے تو سفر آخرت کی آسانی کے خیال سے لوگ چپکے چپکے اُس کے کانوں میں ’’ان کہی‘‘ پڑھتے تھے۔ ہاں! اس ’’ان کہی‘‘ کے صحیح الفاظ غیر ہنود کو معلوم نہیں تھے۔ بس ایک بات سنتے چلے آتے تھے کہ ایسا ہوتا ہے۔اتفاق سے اکبر کے زمانہ میں ایک برہمن مسلمان ہوا اُس نے برہمنوں سے کہا کہ تم مسلمان ہوجاؤ اور اس طرح سچے برہمن بن جاؤ، کیوںکہ جس بات کی تصدیق برہمنی ادبیات اور کتبِ متبرکہ میں موجود ہے اس کے ماننے سے ہم برہمن ہوسکتے ہیں۔ وہ برہمن کہتا تھا کہ مسلمان ہونے سے ہم سچے مسیحی بھی بن سکتے ہیں، کیوںکہ مسلمان مسیح ؑ کی بھی تصدیق کرتا ہے اور اسی طرح ہم ہندو اُسی وقت ہوسکتے ہیں کہ ’’محمد ﷺ‘‘ پر ایمان لائیں جنھوں نے