پایۂ تصدیق کو پہنچ گئی اور جنوبی افریقہ کے رصد خانوں میں ۲۶ اِنچ والی دُوربین کے ذریعہ سے دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ واقعی ستارہ کے دو ٹکڑے ہوگئے ہیں۔
اس معاملہ کی جنوبی افریقہ میںنہایت محنت و جانکاہی سے تحقیقات کی جائے گی، کیوںکہ ممکن ہے اس کے ذریعہ سے ترکیب و مادۂ کائنات کا کچھ حال معلوم ہوسکے۔
لیکن ابھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کو اس واقعہ کا یقین نہیں آیا، چناںچہ رائل سوسائٹی کے ممبر ڈاکٹر جے۔ ایچ۔ جینسن سے جب یہ حال بیان کیا گیا تو فرمانے لگے کہ یہ واقعہ ہرگز قابلِ یقین نہیں، ممکن ہے کہ ایسا ہوا ہو کہ کوئی دوسرا ستارہ جو ابھی تک نظر نہیں آیا تھا گردش کرتا ہوا ’’لوڈ اپکٹوریس‘‘ کے قریب آ گیا ہو۔ شاہی نجومی کا بیان ہے کہ جب تک معاملہ کی کافی تحقیقات نہ کرلی جائے اُس وقت تک کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
بہرحال شق القمر کی اس ستارے کے دو ہوجانے سے علم ظاہری بھی تصدیق کرتا ہے۔ کثرت سے اس کا قائل ہوجانا اور متردد کا دعویٰ امتناع کا نہ کرنا استحالہ بلکہ استبعاد کی نفی کرتا ہے، پھر انضمام روایت صحیحہ کے بعد سہولت سے وقوع ثابت ہوتا ہے۔
1 (1 (کو) منقول از ’’مشرق‘‘ ۱۹؍ اپریل ۲۸ء
مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا ممکن ہے: ڈاکٹر امیروز جان ولسن نامی ایک محقق نے جو کوئینز کالج آکنفرڈ کے فیلو رہ چکے ہیں پرنسٹن تھیولاجیکل ریویو میں حضرت یونس ؑ کے تین روز تک شکمِ ماہی میں رہنے کے متعلق ایک مضمون شایع کرایا ہے اور اس واقعہ کی نسبت جیسے سائنس دان طبقہ عام طورپر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ایسی شہادتیں بہم پہنچائی ہیں جن سے اُن کا وقوع و صدور ممکن ثابت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ویلسن لکھتے ہیں کہ وہیل مچھلی کی ایک فرع اسّی اسّی فٹ لمبی ہوتی ہے اور ان مچھلیوں کا پیٹ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ بیک وقت کم از کم بیس انسان اُس میں آرام سے کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اب تک یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ وہیل مچھلی کا حلق بہت تنگ ہوتا ہے اور اس میں کسی انسان کا سالم جانا غیر ممکن ہے۔ لیکن ڈاکٹر ولسن کہتے ہیں سبرم وہیل کا حلق تنگ نہیں ہوتا اور اس میں سے نہ محض آدمی، بلکہ بڑی بڑی چیزیں بھی بآسانی اندر پہنچ سکتی ہیں، چناںچہ ایک مچھلی کا پیٹ چاک کیا گیا تو اس میں سے سولہ فٹ لمبی شارک مچھلی صحیح و سالم نکلی۔
انسان کے صحیح و سالم مچھلی کے پیٹ میں پہنچ جانے کا سوال تو اس طرح ہوگیا، لیکن دوسرا اعتراض یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا