اور ابھی کل کی بات ہے کہ آریہ سماج کے بانی نے نیوگ کو جائز بتلایا ہے۔ ایک غیر خون متبنٰی بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا بجائے خود کوئی ۔ُبرا فعل نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں! اہلِ عرب کے مروّجہ اخلاق کی رُو سے یہ فعل برا تھا، لیکن کیا حضرت محمد صاحب کی ساری کی ساری زندگی عربی اخلاق کے خلاف بغاوت کی زندگی نہ تھی۔
دوسرا رہا ’’خاص وحی‘‘ کا اعتراض۔ یہ سچ ہے کہ جب خدا کو ایک شخص ہستی مان کر اس کو عرش بریں پر متمکن مانا جانا ہے، تب اس سے وحی اور الہام لانے کے لیے جبرائیل ایسی درمیان ہستی کی بھی ضرورت ہوگی، مگر کیا یہ درست نہیں کہ جب انسان کے اندر کسی سوال کے جواز یا عدم جواز کی نسبت کشمکش پیدا ہوتی ہے تو بالآخر اسے اس عقدہ کا کوئی حل بھی ہاتھ آتا ہے، جو پاک نفس اور پاک باطن انسانوں کی حالت میں بعض دفعہ ایک شعلہ زن تصویر نقش پایا نوشتہ کی صورت اختیار کرتا ہے اور اگر اسے الہام یا وحی یا اکاش بانی وغیرہ الفاظ سے تعبیر کیا نہ جائے تو کیا کیا جائے:
چوں نہ سرِ معرفت آگہ شوی
لفظ بگذاری سوئے معنی روی
اسی لفظوں کے ہیر پھیر اور چھیڑ چھاڑنے ہی تو ہم کو بے خانماں بنا رکھا ہے اور ہم کو نہ دینا کا چھوڑا ہے نہ دین کا۔
بی بی زینب کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دوسری بیبیوں سے فخریہ کہا کرتی تھیں کہ ’’میرانکاح حضرت سے خود خدا نے آسمان پر کیا ہے اور تمہارا نکاح تمہارے باپوں نے زمین پر کیا ہے‘‘۔ یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے سوا اور کوئی بی بی حضرت عائشہ ؓ کے مد مقابل نہ تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے چمڑے کو دباغت دیتی اور آمدنی غریبوں میں تقسیم کرتی تھیں۔ اسی کی نسبت پیغمبر صاحب نے فرمایا تھا کہ تم میں سے جس کے ہاتھ دراز ہیں وہی مجھ سے جلدی ملے گا۔ وہ اس قدر سخی تھیں کہ جس قدر وظیفہ حضرت عمر سے ملتا سب خیرات کردیتیں۔
بی بی حبیبہ: خدا کی قدرت بڑی عجیب ہے۔ بی بی حبیبہ کا باپ ابو سفیان عمر بھر اسلام کا جانی دشمن رہا۔ اس نے پیغمبرِ اسلام اور اس کے مشن کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا، مگر جب فتح مکہ کے بعد اُس نے طوعاً و کرھاً اسلام قبول کیا، اُس نے اپنی کج روی کی پوری پوری تلافی کرکے وہ وہ خدمات سر انجام دیں جن کی نسبت شان و گمان بھی نہ تھا۔ اسی ابو سفیان کا بیٹا معاویہ پھر اسلام کے حق میں باعثِ رحمت ثابت ہوا ۔ اُس نے حضرت علی کے ساتھ وہ جنگ و جدال کیے جن میں فریقین کے تیس ہزار آدمی ہلاک ہوئے اور خلافت میں دو عملی پیدا ہوئی حتیٰ کہ حضرت علی شہید ہوئے اور معاویہ خلیفہ بن کر کربلا کے الم ناک سانحہ کا آلۂ کار بنا۔