مجمع الجزائر اور افریقہ میں اسلام: اگر آپ اور زیادہ دور جنوب کی سمت جائیں تو آپ کو تبلیغی سرگرمیوں کا ایک اور مرکز ملے گا جو مجمع الجزائر ملایا میں پایا جاتا ہے، اگرچہ یہاں قبولِ اسلام کی رفتار بہت آہستہ تھی، مگر وہ بھی تھوڑے عرصہ پہلے تک جاری رہے۔ اسلام کی تبلیغی سرگرمیوں کے لیے ۔ّبرا عظم افریقہ کا میدان بھی بہت کامیاب ثابت ہوا ہے۔ ساتویں اور آٹھویں صدی میں عربوں کی فتوحات نے مصر اور شام افریقہ پر مسلمانوں کی حکومت قائم کردی تھی جس کے بعد بہت سی آبادی نے اسلام قبول کرلیا۔
جنوب کی طرف اسلام کی ترقی ابتدا میں تو آہستگی کے ساتھ جاری رہی، لیکن انیسویں صدی میں ترقی کی رفتار بہت تیز ہوگئی۔ خصوصاً یورپ کے عیسائیوں طاقتوں میں ۔ّبرِاعظم کی تقسیم کے بعد تبلیغ کے مواقع اور بھی زیادہ ہوگئے، سڑکیں بن جانے اور ریلیں جاری ہوجانے سے تجارت میں زندگی پیدا ہوئی اور چوںکہ مسلمان تاجر ہی اسلام کا سب سے بڑا مبلغ ہوتا ہے، خصوصاً جب کہ وہ ایسے قبائل میں جاتا ہے جن کا تہذیب و تمدن ادنیٰ درجہ کا ہو۔ اس لیے تجارت کے ذرائع کے ساتھ ساتھ تبلیغ میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ اس پروپیگنڈا کے ایجنٹ ہمیشہ افراد ہی رہے ہیں۔ اور اسلام کی تبلیغی تاریخ کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ اس میں منظم اور مسلسل سعی کا وجود نہیں پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مذہبی حلقوں نے ہندوسان اور افریقہ کے وحشی قبائل کو مسلمان بنا کر تبلیغ میں جو حصہ لیا ہے، وہ بھی ضبطِ تحریر میں نہیں آیا، کیوںکہ ان کی حیثیت بھی انفرادی ہی تھی۔
نو مسلموں کی مذہبی واقفیت: تاریخ کے مختلف زمانوں میں تو یہ اسلام کا ایک قابلِ غور پہلو رہا ہے کہ نو مسلموں نے قبولِ اسلام کے وقت نہایت سطحی تعلیم حاصل کرلی ہے، اس کی وجہ کچھ تو یہ ہے کہ ساتویں صدی میں عربوں نے جو سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل کیں ان سے اس صدی کے ختم ہونے تک ایک بہت بڑی سلطنت مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی جو مغرب میں بحر اٹلانٹک سے لے کر مشرق میں دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی اور جس میں مفتوحہ اقوام کے بے شمار افراد اسلام کی آغوش میں آرہے تھے۔ بعد کی صدیوں میں بھی اسی طرح اسلام کی وسیع اشاعت اور اجتماعی قبولِ اسلام کے واقعات بہ کثرت ملتے ہیں۔ اسلام کا کلمہ شہادت جس کو پڑھنے کے بعد ہر غیر مسلم مسلم ہوسکتا ہے بہت مختصر ہے اور تبدیلِ مذہب کے وقت مذہبی تعلیمات اور ان کے اصول و فروع نو مسلم کے سامنے نہیں آتے اور مسلمان ہونے کے بعد