میں سب سے اونچا اور بلند ہے۔ اورعیسائی محققوں نے تو آپ کی تہذیب، دیانت، امانت داری، غریبوں پر رحم و کرم، مساوات بین الاقوام انسانی صفات کا مکمل نمونہ آپ کو مان لیا ہے۔ ان میں واشنگٹن اورنگ سرولیم میور ڈاکٹر لٹیز۔ جان ڈیوں پورٹ کے نام نامی قابلِ ذکر ہیں جن کی تصانیت میں بہت شرح و بسط سے حضور انورﷺ کا ذکر مبارک آیا ہے۔
ڈاکٹر اینی بسنٹ صاحب نے حضر ت کی سوانح عمری نہایت شرح و بسط سے لکھی ہے۔ سکھوں کے گرونانک صاحب نے بھی اپنی کتاب میں اسلام اور آں حضرت کو ذریعۂ نجات تحریر فرمایا ہے۔
رسول کریم ﷺ ایک آریہ کی نظر میں
پروفیسر رام دیو صاحب بی۔ اے سابق پروفیسر گرو کل کا نگڑی وایڈیٹر ویدک میگزین نے ایک لکچر میں جو لاہور آریہ سماج میںکچھ ۔ّمدت ہوئی دیا تھا بیان کیا: چھٹی صدی میں عرب کی اخلاقی حالت بہت خراب تھی۔ جب کوئی باشندہ مرجاتا تھا تو وہ اپنی عورتیں بطورِ ورثہ چھوڑ جاتا تھا، جس کے بعد اس کا بیٹا سوائے اس عورت کے جس کے پیٹ سے وہ پیدا شدہ تھا باقی سب عورتوں کو اپنی بیویاں لیتا تھا۔ علاوہ ازیں عارضی شادیاں بھی ہوتی تھیں۔ عرب قوم میں اتفاق کا نام و نشان نہ تھا، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹا کرتے تھے۔ خیال تھا کہ یہ قوم کبھی اُٹھ نہیں سکتی، لیکن دنیا کی تاریخ میںیہ معجزہ ہوا کہ حضرت محمد (ﷺ) نے اس قوم میں جان ڈال دی۔
حضرتﷺ نے انھیں سکھایا کہ بت پرستی چھوڑ دو اور ایک خدا کو مانو۔ شروع میں حضرت محمدﷺ صاحب کے صرف ۳۰ معاون اور مددگار تھے ان کی جاتی (قوم) قریش ان کی سخت مخالف تھی۔ یہاں تک کہ آخر کار انھیں مکہ سے بھاگ کر مدینہ جانا پڑا، لیکن مدینہ میں بیٹھے ہوئے محمد صاحب نے ان میں جادو کی بجلی بھر دی۔ وہ بجلی جو انسان کو دیوتا (فرشتہ) بنا دیتی ہے۔ آں حضرتﷺ نے یہ بجلی راجوں مہاراجوں میں نہیں بھری تھی، بلکہ تمام لوگوں میں۔ اور یہ غلط ہے کہ اسلام محض تلوار سے پھیلا ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ اشاعتِ اسلام کے لیے کبھی تلوار نہیں اُٹھائی گئی، اگر مذہب تلوار سے پھیل سکتا ہے تو آج کوئی پھیلا کر دکھائے۔ محمد صاحب نے عرب میں کسی قسم کا وشواش (یقین) بھر دیا تھا اس کی ایک مثال سنیئے۔
ایک غلام کو جو مسلمان ہوچکا تھا اُس کا آقا دھوپ میں بٹھا کر اور اس کی چھاتی پر پتھر رکھ کر پوچھا کرتا تھا کہ بتا تو