محمد(ﷺ) کو چھوڑے گا یا نہیں، لیکن غلام صاف انکارکرتا ہے۔ 1 (1اخبار ’’پرکاش‘‘)
1 (1 (یط) منقول از ’’مشرق‘‘ گورکھ پور نمبر ۵۰ جلد ۲۱، مورخہ ۸؍ ستمبر ۱۹۲۷ء
بہائی مذہب اور شریعتِ محمدیہ: شریعت محمدیہ موجود زمانہ کے مطابق اور ناقابلِ تنسیخ ہے (ایک حق پسند ہندو پنڈت پر شوتم صاحب دیوست دھاری کے قلم سے)
’’ہر مذہب کی شریعت کسی ہادی کو ضرورتِ زمانہ کے اعتبار سے دی گئی اور جب اقتضائے وقت میں تبدیلی ہوئی تو شریعت بھی تبدیل کردی گئی۔ میرے نزدیک اس اقتضائے وقت کا بھی تعین ہے اور وہ قدرت کی ہر شے سے ثابت و عیاں ہے اور چونکہ مذہب صرف نسلِ انسان ہی کے واسطے مخصوص ہے، اس لیے انسانی نسل کے واسطے چار دور مخصوص ہیں۔ یعنی رضاعت، طفلی، شباب اور کہولت۔ اور یہ چاروں باتیں ایسی ہیں کہ جس سے کوئی شئی کائنات ہستی کی مستثنیٰ نہیں۔ نسلِ انسانی پر بھی چاروں زمانے آئے اور ہر زمانہ کے مطابق اس حکیم مطلق نے نسلِ انسانی میں چار قسم کی شریعت اپنے انبیا کی وساطت سے بنی آدم کے لیے بھیجی اور چوںکہ محمدی دورِ شریعت کے سلسلہ میں چوتھا اور آخری دور ہے۔ اس لیے اب کسی جدید شریعت کی گنجایش نہیں اور نہ ضرورتِ زمانہ کے اعتبار سے شریعتِ محمدیہ قابلِ ترمیم نظر آتی ہے۔
حضرت محمد (ﷺ) مثل انبیائے سابق کے کسی خاص قوم یا ملک کے لیے مبعوث نہیں ہوئے، بلکہ وہ رحمتِ عالمیاں جو مذہب لایا وہ دنیا کے لیے ہے اور اسی لیے ہر ملک و قوم کے طبائع کے لحاظ سے ایک مشترک اور عالم گیر شریعت دی گئی ہے اور کسی مذہب و ملت کی شریعت ایسی نہیں ہے جس میں عالم گیر شریعت ہونے کی اہلیت ہو۔ ہاں! ایک مسئلہ سودِ اسلام کا ضرور ایسا ہے کہ بادی النظر میں قابلِ ترمیم نظر آتا ہے اور مسلمان بھی حرمتِ سود کی وجہ سے پریشان نظر آتے ہیں۔ بہائی اس پر یہ کہتے ہیںکہ مسلمان شریعت محمدیہ کی ترمیم کرنے والے کون ہوتے ہیں جس طور پر ہمیشہ احکامِ الٰہی کی ترمیم و تنسیخ ہوتی رہی ہے اب بھی اسی طرح ہونا چاہیے، یعنی حضرت بہاء اللہ نے اس شرعی مسئلہ میں جو ترمیم کی ہے وہ اقتضائے وقت کے لحاظ سے ہے اور چوںکہ دنیا اس کو قبول کرنے کے لیے مجبور ہے۔ پس بہاء اللہ کی ۔ّنبوت تشریعی ثابت ہے۔
(ردِ بھائیہ) مذہب کو اگر مذہب سمجھا جائے اور اس کے اوامر و نواہی کو قابلِ یقین تصور کیا جائے تو اس کا ہر حکم واجب التعمیل ہے، اگر اس کے فوائد و نقصان ہماری فہم سے باہر ہوں تو اس بنا پر وہ حکمِ مذہب رد نہیں کیا جاسکتا۔ ہم جب بیمار ہوتے ہیں حکیم و ڈاکٹر کا علاج کرتے ہیں، مگر صحت کے خیال سے کبھی یہ ضرورت نہیں سمجھتے کہ اپنے نسخہ کے تمام اجزا کے خواص معلوم کرلینے کے بعد اگر ہماری رائے میں مفید ہوں تب استعمال کریں، اگر ہم ایسا کریں تو غالباً ہر حکیم و ڈاکٹر