اعمال کی اس میں ہدایت کی گئی ہے وہ ایسے برگزیدہ اور شائستہ ہیں کہ کسی مشہور مسیحی قسیس کی ہدایتیں بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
1 (1 (ط) منقول از اخبار ’’وحدت‘‘ ۸؍ فروری ۱۹۲۵ء نمبر ۲۶ ج۲
مسٹر وڈول جس نے قرآن شریف کا ترجمہ شایع کیا۔ لکھتا ہے:
جتنا بھی ہم اس کتاب (قرآن) کو اُلٹ پلٹ کر دیکھیں اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی نامرغوبی نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، لیکن فوراً ہمیں مسخر کرلیتی ، متحیر بنادیتی اور آخر میں ہم سے تعظیم کراکر چھوڑتی ہے۔ اس کا طرزِ بیان باعتبار اس کے مضامین و اغراض کے عفیف عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں۔ غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا ۔ُپر زور اثر دکھاتی رہے گی۔
1 (1 (ی) منقول از اخبار ’’وحدت‘‘ ۸؍ فروری ۱۹۲۵ء نمبر ۲۶ ج۲
قرآن کی کرنیں مغرب پر: کلامِ الٰہی کا اِک یہ بھی نادر معجزہ ہے کہ سخت متعصب مخالفین اور نکتہ چیں عیسائیوں سے اپنا لوہا منوالیا۔ اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْأَعْدَائُ یعنی جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے‘‘ عنوان بالا پر مولانا عبداللہ صاحب نے نہایت تند ہی سے ایک ضخیم رسالہ ’’پیامِ امین‘‘ مرتب فرمایا ہے۔ اسی میں ملخصاً ناظرین العدل کی دلچسپی کے لیے چند نامور مستشرقین کی صائب آراء جو قرآن کے متعلق ہیں پیش کی جاتی ہیں۔
کونٹ ہنری وی کاسٹری اپنی کتاب ’’الاسلام‘‘ میں جو کونٹ موصوف نے فرنچ میں لکھی تھی جس کا ترجمہ مصر کے مشہور مصنف احمد فتحی بک زا غلول نے ۱۸۹۸ء میں شایع کیا تھا کہتے ہیں:
قرآن کی وحی کا مسئلہ اور بھی زیادہ مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے، کیوںکہ اربابِ بحث اس کو مفصل طور پر حل نہیں کرتے، عقل حیران ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص کی زبان سے کیوںکر ادا ہوا جو بالکل اُمی تھا۔ تمام مشرق نے اقرار کیا ہے کہ یہ وہ کلام ہے کہ نوعِ انسانی لفظاً و معناً ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ یہ وہی کلام ہے جس کی بلند انشا پردازی نے عمر ؓ بن خطاب کو مطمئن کردیا۔ ان کو خدا کا معترف ہونا پڑا۔ یہ وہی کلام ہے کہ جب یحییٰ ( ؑ ) کی ولادت کے متعلق اس کے جملے جعفر بن ابی طالب نے نجاشی بادشاہ کے سامنے پڑھے ہیں تو اُس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے اور پشپ ۔ّچلا اُٹھا کر یہ کلام اسی سرچشمہ سے نکلا ہے جس سے عیسیٰ ؑ کا کلام نکلا تھا۔ محمد (ﷺ) قرآن کو اپنی رسالت کی دلیل کے طور پر لائے اور وہ اس وقت سے تا ایں دم ایک ایسا مہتم بالشان راز چلا آتا ہے جس کے طلسم کو توڑنا