جاتی ہیں یا تو اس کی نسبت یہ کہا جائے کہ اتفاقیہ ہوگئے ہیں یا بہ مجبوری ر۔ّبانی مرضی کی طرف منسوب کیا جاوے۔ بایں ہمہ یہ نظم ایک شخص واحد نے کیا تھا جس نے اپنے ملک کے تمام باشندوں میں اپنی روح پھونک دی اور تمام کے دل پر نہایت تعظیم و تکریم کا خیال جو کسی انسان کے لیے کبھی ظاہر نہیں کیا گیا نقش کردیا جو سلسلہ قوانین و اخلاق کا ان سے بنایا وہ اعلیٰ درجہ کی ترقی سے بھی ایسا ہی موافق تھا جیسا کہ ادنیٰ ترین لوگوں سے اور اس سلسلہ نے ایک قوم سے دوسری قوم میں گزر کر ہر ایک قوم کو جس نے اُسے قبول کیا ان قوموں اور سلطنتوں سے فائق کردیا جن سے ان کا میل ہوا۔
مؤرخ اوکھلوٹ لکھتا ہے کہ اُصول شرع اسلام میں سے ہر ایک اصل کو دیکھئے تو فی نفسہٖ ایسی عمدہ اور مؤثر ہے کہ شارعِ اسلام کے شرف و فضیلت کو قیامت تک کافی ہے۔ اور ان سب اُصول کے مجموعہ سے ایسا انتظامِ سیاست قائم ہوگیا جس کی قوت و متانت کے سامنے اور سب انتظام ہیچ ہیں۔ ایک شخص کی حین حیات اور وہ بھی ایسا شخص جو ایک جاہل وحشی تنگ مایہ اور کم ظرف قوم کے قابو میں تھا وہ شرع اُن ممالک میں شایع ہوگئی جو رومۃ الکبریٰ کی سلطنت قاہرہ سے کہیں عظیم و وسیع تھا۔ جب تک اس میں اس کی اصلی کیفیت باقی رہی اس وقت تک کوئی چیز اس کا مقابلہ نہ کرسکی۔ ۱ھ۔
1 (1 (یح) منقول از المحمود دیوبند: جلد ۱ بابتہ ماہِ محرم الحرام ۱۳۴۶ھ
ایک تعلیم یافتہ ہندوں کی رائے: مسٹر ایل۔ ایم۔ سوالے ایک تعلیم یافتہ اور وسیع الخیال ہندو مرہٹہ ہیں انھوںنے ۱۹۲۴ء میں عراق اور ایران کا بھی سفر کیا ہے۔ فرقہ وارانہ ذہنیت اور مشترک انتخاب کے عنوان سے ان کا ایک قابلِ قدر مضمون مرہٹہ مؤرخہ ۱۴؍ اگست میں شایع ہوا ہے، جس کے دوران میں وہ فرماتے ہیںکہ:
۱۹۲۴ء میں میں نے عراق اور ایران کی سیاحت کی تھی اور میں ترقی کی اس رفتار کو دیکھ کر بہت زیادہ متاثر ہوا تھا جو ان اسلامی ممالک نے اس عرصۂ قلیل میں کی ہے اور کررہے ہیں جو مغربی اقوام کے ساتھ تعلق اور میل جول ہوا ہے مجھے اس کا یقین ہے کہ اسلام پر تعصب مذہی کا جو الزام لگایا جاتا ہے وہ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ پیغمبر عربیﷺ کا مذہب اپنے پیروؤں کے دل و دماغ پر ہر گز ایسے قیود نہیں عائد کرتا جو ان کی تہذیب و تمدن کی ترقی میں آگے بڑھنے اور دیگر اقوامِ عالم کے دوش بدوش ترقی کرنے میں مانع آئیں۔ ہندوستان سے باہر کی اسلامی حالت کا وسیع جائزہ لینے کے بعد جو جنگ عمومی کے اختتام کے بعد ظہور پذیر ہوا مجھے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں ذرا بھی تأمل نہیں ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر فرقہ وارانہ ذہنیت کی تنگ خیالی ہندو آباء اجداد کے اثر اور ہندوؤں کی صحبت اور میل جول کا نتیجہ ہے۔