کفر میں اسلام
(مولانا غازی محمود دھرم پال کی تقریر انجمن اسلامیہ گور کھپور میں)
آج میرا مضمون ’’کفر میں اسلام‘‘ ہے۔ معلوم نہیں اس عنوان کو دیکھ کر آپ نے اپنے دل میں کیا خیال کیا ہوگا، مگر میں نے یہ مضمون پسند کرتے وقت اس کے دو پہلو مد نظر رکھے تھے: ایک تو یہ کہ اگر کوئی شخص اسلام کو ترک کرکے کفر میں چلا جاوے تو کفر کی حالت میں اس کو اسلام کیا نظر آتا ہے؟ اور خود کفر کا اس پر کیا اثر ہوتا ہے؟ کفر اور اسلام دونوں کا مشاہدہ و تجربہ کرکے وہ شخص اپنے لیے آخری فیصلہ کیا کرتا ہے؟ آیا وہ یہ پسند کرتا ہے کہ کفر میں ہی ختم ہوجائے، آیا کفر کا مزہ لے کر اور اس کی تلخی کا اسلام کی حلاوت سے مقابلہ کرکے از سرِ نو اسلام میں واپس آنے کی تمنا کرتا اور آخر کار واپس آجاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ مضمون کے اس پہلو پر وہی شخص روشنی ڈال سکتا ہے جس نے اپنی زندگی میں کفر اور اسلام دونوں کی تلخی و حلاوت کا تجربہ و مشاہدہ کیا ہو۔ مضمون کا یہ پہلو اگرچہ زیادہ دلچسپ ہے اور میں اِس بات کا مستحق ہوں کہ اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بنا پر اس پر روشنی ڈال سکوں، مگر میں اس پہلو کو یہاں پر قطعاً نظر انداز کرجاؤں گا اور اس کو کسی ایسے مقام کے لیے ملتوی کردوں گا جہاں مسلمانوں کو یہ خطرہ محسوس ہورہا ہو کہ وہاں پر کوئی یا کئی مسلمان فتنۂ ارتداد کا شکار ہو کر اسلام کو ترک کرکے کفر میں جانے کے لیے تیار ہوں، چوںکہ آپ کے شہر میں اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے، اس لیے میں ’’کفر میں اسلام‘‘ کے اس پہلو کو یہاں پیش کرنا بے محل سمجھتا ہوں۔
میں صرف اس کے دوسرے پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں جس کفر کے ساتھ اسلام کی جنگ ہے آیا وہ کفر فی الحقیقت ایسا کفر ہے جو اسلام سے قطعاً خالی ہو، اسلام سے قطعاً دور و محروم ہو؟ یا اس میں اسلام کا کوئی جزو ایسا بھی موجود ہے جس کی بنا پر ہم اہلِ کفر سے اپیل کرنے کا حق رکھ سکتے ہوں کہ اگر تم اس اسلام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو جو ہم تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں تو کم از کم اس اسلام کو یا اسلام کے اس جز کو تو تسلیم و قبول کرو جو تمہارے نزدیک اس چیز میں موجود ہے جس کو ہم ’’کفر‘‘ کہتے ہیں یا تم ’’غیر اسلام‘‘ سمجھتے ہو۔
حضرات! آپ یہ خیال کرسکتے ہیں کہ ’’کفر میں اسلام‘‘ کا یہ پہلو آپ کے نزدیک بالکل نئی چیز معلوم ہوگی، مگر نہیں یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، بلکہ اسلام کی مقدس کتاب قرآن پاک نے بطور ایک بنیادی اُصول کے دنیا بھر کے اہلِ کتاب کو یہ