پیٹ کے اندر زندہ رہنا ممکن ہے؟ ڈاکٹر ویلسن اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں سانس لینے کے لیے کافی ہوا ہوتی ہے البتہ درجۂ حرارت وہاں زیادہ ہوگا مثلاً ۱۰۴ درجہ فارن ہیٹ جو انسان کے لیے بخار کا درجہ ہے تاہم اس میں زندہ رہنا ممکن ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ معدہ میں جو عرق ہوتا ہے وہ ہر شے کو بتدریج تحلیل کرتا ہے۔ ڈاکٹر ویلسن اِس کا جواب یہ دیتے ہیںکہ کسی زندہ شے کو یہ عرق نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اگر ایسا ممکن ہو تو خود معدہ تحلیل ہوجائے۔
اِن عقلی دلائل کے علاوہ واقعات بھی موجود ہیں، مثلاً: بیان کیا جاتا ہے ۱۸۹۱ء میں ایک جہاز خاک لینڈ کے قریب وہیل مچھلیوں کا شکار کررہا تھا، ایک موقع پر وہیل نظر آئی لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر اسے مارنے کے لیے دوڑے، ایک کشتی اُلٹ گئی اور اُس کے ملاحوں میں سے ایک شخص جس کا نام جیمس بار ٹلے تھا غائب ہوگیا، وہیل ماری گئی، ملاح اسے جہاز پر لائے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگے وہ دن بھر کام کرتے رہے۔ شام تک تجزیہ کا عمل ختم نہیں ہوا، لہٰذا چھوڑ کر سو گئے۔ دوسرے دن صبح پھر کام شروع کردیا، معدہ باہر نکالا گیا تو اس میں جیمس بار ٹلے نکلا، وہ زندہ تھا، مگر اس کے جسم کی جلد بالکل سفید ہوگئی تھی اور عمر بھر سفید رہی۔ چودہ روز تک اس کے ہوش و ہواس معطل رہے، مگر بعد میں حالت درست ہوگئی۔ یہ واقعہ سب کے نزدیک مسلم ہے۔
امریکا کے ایک آدمی مارشل جنکنس کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بھی وہیل مچھلیوں کے شکار کے لیے گیا ہوا تھا، اُس کی کشتی بھی اُلٹ گئی تھی اور ہیل نے اس کو نگل لیا۔ شکاری اس کے پیچھے لگے رہے، جب اسے ۔ُبری طرح زخمی کردیا تو وہ سطح آب پر آگئی اور اس نے قے کی۔ قے کے ساتھ ہی بہت سی کھائی ہوئی چیزوں کے علاوہ مارشل جنکنس بھی باہر آپڑا اور وہ زندہ تھا۔
ان واقعات کے بعد شکمِِ ماہی میں زندہ رہنے کے امکان کا مسئلہ یقینی طور پر طے ہوجاتا ہے، مگر متشککین اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعات محض حسنِ اتفاق کا نتیجہ تھے۔ 1 (1 انقلاب)
نوٹ: لیکن اتفاق بھی ہمارے مدعا کا تو مثبت ہے یعنی وقوع احیاناً ،کیوںکہ استمرارِ وقوع کا تو ہم بھی دعویٰ نہیں کرتے۔ (اشرف)
1 (1 (کر) منقول از’’ صداقت‘‘ میرٹھ۔ ۲۹؍ اپریل ۱۹۲۸ء
مناقبِ نبوی کا گلدستہ