تلشی بچن ست ست کوئے
اس کے بعد خدائی پیغام نہ ہوگا تلشی سچ سچ کہتا ہے۔
بیاس جی مشہور ہندو رشی کی گواہی: مولوی عبدالرحمن چشتی کا مزار لکھنؤ میں ہے یہ بڑے پایہ کے صوفی گزرے ہیں۔ انھوںنے بیان کیا کہ ہندوؤں میں ایک کتاب ’’بھوتک اوتر پران‘‘ ہے، اس کتاب کے تالیف کرنے والے بیاس جی مشہور ہندو رشی ہوئے ہیں۔ وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ
’’آیندہ زمانہ میں مہامت پیدا ہوں گے، اُن کا نشان یہ ہوگا اُن کے سر پر بدلی سایہ کرے گا، ان کے جسم کا سایہ نہ ہوگا۔ دنیا کے لیے کچھ تلاش نہ کریں گے، ان کی سب تلاش دین کے لیے ہوگی۔ جو کچھ پیدا کریں گے اللہ کی راہ میں خرچ کردیں گے۔ تمام عمر کم کھائیں گے۔ عرب کے سردار اُن کے دشمن ہوں گے اور وہ اللہ کے دوست ہوں گے۔ وہ قادر و توانان کو تیس ادھیا پر ان بھیجے گا‘‘۔
مولوی عبدالرحمن چشتی ؒ اس تیس پر ان ادھیان سے قرآنِ مجید کے تیس پاروں کا مطلب لیتے ہیں۔
راجہ بھوج مشہور عالم راجہ کا اسلام: راجہ بھوج کے نام کے کئی شخص مشہور ہیں۔ ایک مقام تو بلیا کے پاس ہے جسے بھوج پور کہتے ہیں۔ ہم نے اسے نہیں دیکھا ہے۔ ہمارے ایک عزیز نے جن کا تعلق قاضی پورہ بلیا سے ہے بیان کیا کہ وہاں ایک میدان میں کچھ پرانی جہاں انقلاب دیدہ بوسیدہ عمارتیں ہیں، جو اپنی زبان حال سے کچھ کہتی ہیں اور کہہ نہیں سکتیں۔ انھیں تعمیری پوست و استخواں ڈھانچوں میں ایک رصد خانہ ہے جسے عرف عام میں جنتر منتر کہتے ہیں، فلکیات کے زائچے اور نجوم کے نشانِ دہ علامات اس پر منقش ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ یہاں راجہ بھوج کے شاہی محلات تھے۔ وہ شق القمر کے واقعہ سے مسلمان ہوا۔ اس کے خاندان والے اس سے خلاف، اور اُس کی رعایا اس سے خلاف ہوئی تب وہ ترک وطن کرکے ’’دھار وار‘‘ (گجرات) گیا، وہیں اس نے اپنی بقیہ زندگی یادِ الٰہی میں بسر کی۔ نام شیخ عبداللہ تھا۔
اس واقعہ کو ہم نے ایک کتاب میں دیکھا تھا جو مولوی سبحان اللہ صاحب کے کتب خانہ میں تھی۔ ’’بشارات احمدیہ‘‘ کے مؤلف مولوی عبدالعزیز نے بھی راجہ بھوج کا ذکر کیا ہے، بلکہ اسی سلسلہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس راجہ کے خاندان کے