خدمت کی ہے، اُن کے فخر کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ انھوں نے ایک وحشی قوم کو نورِ حق کی ہدایت کی۔
رومن صاحب ’’تذکرۃ المسیح‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آپ فقط صاحبِ علم ہی نہ تھے، بلکہ صاحب عمل بھی تھے۔ آپ نے اپنے اعمال کے نمونہ سے اُمت کو عمل کی ہدایت فرمائی، چناں چہ جیسی انسانیت اور مروّت مسلمانوں میں ہے وہ شاذ و نادر ہی کسی قوم میں پائی جاتی ہے۔
پادری کنین ایزک ٹیلر کہتے ہیں کہ بانیٔ اسلام نے مذہب کا اصل الاصول خدا کی وحدا۔ّنیت اور عظمت کو قرار دیا ہے۔ رہبا۔ّنیت اور خانہ نشینی کو موقوف کرکے بہادری اور جواں مردی قائم کی۔ انسانوں میں اخوّت کی رُوح پھونکی۔ فطرتِ انسانی کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ اسلام کے اَخلاق ہم سے بڑھے ہوئے ہیں۔ وغیرہم
گاؤ فسری ہیگنس لکھتے ہیں کہ عیسائی مذہب میں اخلاق کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو بانیٔ اسلام کی تعلیم میں نہ پایا جاتا ہو۔ جب ایک فیلسوف اور حکیم سب مذاہب پر غور کرتا ہے تو دین اسلام کی خوبی سادگی کو دیکھ کر دل ہی دل میں پشیمان ہوتا ہے کہ میرا مذہب ایسا کیوں نہ ہوا مجھ کو کوئی مذہب ایسا معلوم نہیں ہوتا جو سخت خرافات اور پیچیدہ مسائل سے ۔ُپر نہ ہو، مگر محمدﷺ کا مذہب بہت سادہ اور حکیمانہ ہے۔
موسیومیون راس تھرٹی کہتے ہیں کہ اسلام ایک جامع الکمالات قانون ہے جس کو انسانی طبعی اقتصادی اور اخلاقی قانون کہنا بالکل بجا ہے۔ زمانۂ حال میں جتنے قوانین نوعِ انسانی کی فلاح کے لیے وضع کیے گئے ہیں وہ سب اس مقدس مذہب میں سب سے پہلے موجود ہیں۔
پروفیسر بارلیسن کہتے ہیں کہ کوئی چیز عیسائیوں کو اس گمراہی سے نہیں نکال سکتی سوائے اس آواز کے جو سر زمینِ عرب سے غارِ حرا کی طرف آئی اور جس نے ایسا عمل پیرانہ اختیار کیا جس سے بہتر ناممکن ہے۔
1 (1 (کد) منقول از رسالہ ’’جمیل‘‘ مظفر نگر۔ بابت جنوری ۳۸ء
قرآن کریم کی عظمت و وقعت
فرانس کے مشہور مستشرق موسیو سید یو کے قلم سے