پیغمبرِ اسلام نہ صرف ان محاسن کی تبلیغ کرتا تھا، بلکہ خود بھی ان پر عامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں آج باوجود اس مقدس بزرگ (پیغمبر) کے انتقال کو تیرہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے ایک خاکروب بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو کر کسی بڑے سے بڑے خاندانی مسلمان سے مساوات کا دعویٰ کرسکتا ہے‘‘۔
مسٹر بین چندرپال: مسٹر بین چندرپال ہندوستان کے مشہور اہلِ قلم اور بنگال کے خاص مایہ ناز فرزند ہیں۔ اسلامی رواداری پر ایک طویل مضمون میں رقم طراز ہیں:
’’اسلام نے یہاں آکر ہمیں جدید آئین و قوانین سے روشناس کیا۔ نئے طریقہ ہائے انتظام بتائے۔ حکومت کے جدید اغراض و مقاصد سے واقف بنایا۔ اور ہندوستان کے مختلف افراد اور مختلف صوبوں میں ایک ایسی جماعت پیدا کردی جو پیشتر کی نسبت کہیں زیادہ وسیع و اقتصادی مفاد و مقاصد کی عامل تھی۔ مسلمانوں کی انگریزوں کی آمد سے ایک ۔ّمدت پیشتر ہی ہندوستان کی سلطنت کو منظم اور قوم کو متحد کرنے کا فخر و شرف حاصل کرلیا تھا۔
اسلام کی سیاسی صورت حال کے متعلق مسٹر امیر علی لکھتے ہیں کہ اُن چند سالوں میں جب کہ حضور نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ میں رونق افروز تھے اسلام نے سیاسی طور پر بنی نوع انسان کو اتنے حقوق عطا کیے جو رومیوں اور دیگر اقوام نے صدیوں میں بھی اپنی رعایا کو نہ دیے تھے‘‘۔ اسلام نے ٹیکس کو محدود کردیا۔ قانوناً سب انسانوںکو ایک دوسرے کے مساوی بنادیا۔ حکومت خود اختیاری کے اصول کی ترویج کی، بادشاہوں کے اختیارات پر پابندی عائد کیں‘‘۔
گاندھی: گاندھی نے جیل سے باہر آکر تجرباتِ جیل کے سلسلہ میں ارقام فرمایا ہے کہ
سیرۃ النبی (مصنفہ علامہ شبلی مرحوم) کے مطالعہ سے میری اس عقیدہ میں مزید پختگی اور استحکام آگیا کہ اسلام نے تلوار کے بل پر کائنات انسانی میں رسوخ حاصل نہیں کیا تھا، بلکہ پیغمبرِ اسلام (ﷺ) کی انتہائی سادگی انتہائی بے نفسی، عہود و مواثیق کا انتہائی احترام، اپنے رفقا و متبعین کے ساتھ گہری وابستگی، جرأت بے خوفی، اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ، اور اپنے مقصد و نصب العین کی حقانیت پر کامل اعتماد، اسلام کی کامیابی کے حقیقی اسباب تھے جو ہر مشکل اور ہر کاٹ کو اپنی ہمہ گیرزد میں بہالے گئے۔
1 (1 (کح) منقول از ’’الامان‘‘ ۲۸؍ اگست ۲۸ء
سائنس دانوں کے قول سے فنائے دنیا کا دفعِ استبعاد