ایک عظیم الشان آدمی بے تابانہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے اور اپنے غیر معروف بھائیوں کے ساتھ فریضہ نماز ادا کرتا ہے۔ اس نظارے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بے شک اس عبادت میں سادگی اور فروتنی کا سبق موجود ہے اور اس میں مساوات کی شان نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلامی رسول نے عجیب انداز سے امیر و غریب ادنیٰ و اعلیٰ کو ایک صف میں جمع کیا اور مناسب طور پر غرور و نخوت کے طلسم کو پاش پاش کیا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ نماز ایک بہترین عبادت ہے۔ (ترجمہ در خلافۃ)
حضرت عمرؓ اوائل میں اسلام کے جانی دشمن تھے۔ ایک روز تلوار لے کر گھر سے نکلے کہ جا کر آں حضرتﷺ کا کام تمام کردیں۔ راستہ میں معلوم ہوا کہ خود اُن کی ہمشیرہ ایمان لاچکی ہے۔ انھوں نے پہلے اسی کا صفایا کرنے کا ارادہ کیا۔ جب بہن کے گھر میں داخل ہوئے وہ قرآن کی تلاوت کررہی تھی۔ جب عمرؓ نے تلوار اُٹھائی، بہن نے کہا: ذرا پہلے اس کو دیکھ تو لو پھر جو چاہے کرلینا۔ عمرؓ نے وہ نوشتہ لے کر پڑھنا شروع کیا۔ نوشتہ کیا تھا جادو کا تعویذ تھا۔ عمرؓ پشیمان ہوئے اور ڈرتے ہوئے آں حضرتﷺ کے مکان پر پہنچے اور مشرف باسلام ہوئے۔ بعد میں اسلام کے حق میں آپ نے جو خدمات ادا کیں اُن کی تاریخِ اسلام شاہد ہے۔
کچھ عرصہ ہوا ایک آریہ دوست نے جو بڑے اہلِ قلم بھی ہیں مجھ سے کانپور میں کہا کہ حضرت عمرؓ کی زندگی ایسی اعلیٰ اور پاک ہے کہ مجھے اس میں کوئی رخنہ نظر نہیں آتا، اپنے داماد کے شہید ہونے کے بعد عمرؓ نے اپنی بیٹی کا ہاتھ آں حضرت ﷺ کے سامنے پیش کیا اور آپ نے اُسے منظور کرکے حضرت عمرؓ کر موہونِ احسان فرمایا۔ یہ بی بی بڑی پرہیزگار اور عابد تھیں اور حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں قرآن کا جو نسخہ مرتب کرایا تھا وہ اُسی کی امانت میں رکھا گیا تھا۔ بی بی عائشہؓ سے اس کو بڑی محبت تھی۔
اُمِ ۔َسلمؓ : اُمّ ۔َسلم اور اس کا خاوند ابو۔َ سلم اس پارٹی میں سے تھے جو مسماۃ سودہ اور اس کے خاوند کی طرح حبش کو ہجرت کر گئے تھے، حبش سے واپسی پر دونوں میاں بیوی مدینہ کی ہجرت پر آمادہ ہوگئے، مگر اُمّ ۔َسلم کے میکہ والے مزاحم ہوئے اور زبردستی اسے ابو۔َ سلم سے کھسوٹ لے گئے، اتنے میں اُس کی سسرال والے بھی آ پہنچے اور اس کے شیر خوار بچہ کو اس کی گود سے لے بھاگے۔ بچاری اُمّ۔َ سلم رات دن گریہ و زاری کرتی رہتی تھی حتیٰ کہ ایک رشتہ دار نے رحم کھا کر اس کو اپنے خاوند کے پاس مدینہ پہنچا دیا۔ دو سال کے بعد اُس کا خاوند لڑائی میں شہید ہوا۔ اور حضرت نے اُس کو عقد نکاح میں لے لیا۔ اس وقت اُس کی عمر ۷۵ سال کی تھی۔ ۸۰ سال کے بعد اُس کا انتقال ہوا۔