انسانی طاقت سے باہر ہے۔
انگلستان کے نامور مورّخ ڈاکٹر گین اپنی مشہور تصنیف ’’سلطنت روما کا انحطاط و زوال‘‘ کی جلد ۵ باب ۵۰ میں لکھتے ہیں:
قرآن کی نسبت بحرِ اطلانتک سے لے کر دریائے گنگا تک نے مان لیا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کی رُوح ہے، قانونِ اساسی ہے اور صرف اُصول مذہب ہی کے لیے نہیں، بلکہ احکام تعزیرات کے لیے اور ان قوانین کے لیے بھی ہے جن پر نظام کا مدار ہے، جن سے نوعِ انسان کی زندگی وابستہ ہے، جن کو حیاتِ انسانی کی ترتیب و تنسیق سے گہرا تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ (حضرت) محمد (ﷺ) کی شریعت سب پر حاوی ہے، وہ اپنے تمام احکام میں بڑے بڑے شہنشاہ سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے فقیر و گداگر تک کے لیے مسائل و مبانی رکھتی ہے۔ یہ وہ شریعت ہے اور ایسے دانشمندانہ اُصول اور اس قسم کے عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب ہوئی ہے کہ سارے جہان میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: تثلیث اور خدا کے مجسم ہونے کے رموز و اسراء، وحدۃ الوجود کے عقیدہ اور اُصول کی نفی اور تکذیب کرتے ہیں۔ ان رموز و اسرار سے صاف ظاہر ہے کہ دو تین ہم رتبہ خداؤں کی تعلیم دیتے ہیں اور حضرت مسیح ( ؑ ) کو جو ایک انسان ہیں خدا کا بیٹا ظاہر کرتے ہیں۔ قدیم زمانہ کی تفسیر صرف ان پختہ عقیدہ کے عیسائی کو مطمئن کرسکتی ہے، لیکن (حضرت) محمد مصطفی (ﷺ) کا ایمان و عقیدہ ہر قسم کی پیچیدگی اور ایہام وغیرہ سے بالکل پاک و صاف ہے۔ اور قرآن (مجید) خدا کی وحدا۔ّنیت کی ایک زبردست شہادت ہے۔
آگے چل کر رقم فرماتے ہیں: قرآن وحدانیت خدا کا ایک شاہد عظیم ہے۔ ایک فلسفی مو۔ّحد بے تکلف مذہبِ اسلام میں شریک ہوسکتا ہے۔ وہ ایک مذہب ہے جو ہم لوگوں کی موجودہ سمجھ کے لیے بہت عالی ہے۔
جان جاک ریملک مشہور جرمن فلاسفر جس نے مقاماتِ حریری اور تاریخ ابوالفدا اور ۔ّمعلقہ طرفہ وغیرہ وغیرہ تصنیفات کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا تھا لکھتا ہے:
بعض لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں کہ جہاں انھیں عربی میں کچھ ۔ُ۔ّشد۔ّبد ہونے لگی قرآن مجید کی ہنسی اُڑانے لگے۔ اگر خوش نصیبی سے کہیں انھیں وہ موقع ہاتھ لگتا ہے کہ آں حضرت (ﷺ) اپنی فصیح اور مؤثر لہجہ میں قرآن کی کوئی سورت پڑھ رہے ہیں، دلوں پر بجلیاں گر رہی ہیں اور جب کسی آیت کے متعلق یہ احتمال ہوتا ہے کہ سامعین اس کے حقیقی مفہوم تک نہ پہنچ سکیں گے تو آپ نے اس کو بیان سے اس طرح فرمایا تو وہ آیت سنتے ہی حضور سے سجدہ میں گر پڑتا اور سب کے وہی آواز ان کے منہ سے نکلتی کہ ہمارے نبی! پیارے رسول! علیک الصلاۃ والتسلیم ہاتھ بڑھایئے اور مجھے اپنے پردوں میں شامل کرنے میں دیر نہ فرمایئے۔ (مولوی اظہار الحق بہبل عباسی امروہی)
1 (1 منقول از اخبار ’’العدل‘‘ گوجرانوالہ ۷؍ جنوری ۱۹۲۷ء