بچوں پر شفقت: آپ بچوں سے بڑا اُنس رکھتے تھے۔ آپ اُن کو راستہ میں روک لیتے اور اُن کے سروں پر ہاتھ پھیرتے تھے۔ آپ بچوں کے ساتھ اچھلتے کودتے تھے اور اُن کے کھلونوں سے کھیلتے تھے۔ آپ نے عمر بھر کسی کو نہیں مارا۔ آپ نے شدید ترین الفاظ جو کبھی مخالفینِ مذہب کے متعلق کہے یہ تھے کہ ’’اسے کیا ہے؟ خدا کرے کہ اس کا چہرہ خاک آلود ہو‘‘۔ جب آپ سے کہا گیا کہ فلاں شخص کو بد دعا دیں تو آپ نے جواب دیا کہ میں بد دعا دینے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہوں، بلکہ انسانوں کے ساتھ رحم کا سلوک کرنے آیا ہوں۔ آپ بیماروں کی مزاج پرسی کرنے جاتے اور جو جنازہ آپ کو ملتا تھا آپ اس کے ہمراہ ہولیتے تھے۔ آپ ایک غلام کی شرارت بھی برداشت کرلیتے تھے اپنے کپڑے خود دھوتے اور پیوند لگاتے تھے اور اپنے جوتوں کی خود مرمت کرتے تھے۔ مصافحہ کرتے وقت آپ اپنا ہاتھ پہلے نہیں ہٹاتے تھے اور نہ آپ کسی اجنبی کے ساتھ باتوں کا خود خاتمہ کرتے تھے اور نہ آپ کسی کی بات سننے سے کان پھیر لیتے تھے۔
رسول عربی میں تمام انسانوں سے زیادہ انسانیت تھی۔ جب آپ اپنی والدہ کی قبر پر جاتے تو روتے تھے اور اُن لوگوں کو رُلاتے جو اُس وقت آپ کے گرد و پیش کھڑے ہوتے تھے۔
۔ّنبوت کا تاجدار جھونپڑیوں میں: جس قدر سادہ اطوار رکھتے تھے اسی قدر آپ مخیر تھے۔ آپ اپنی بیویوں کے ساتھ جھونپڑیوں کی ایک قطار میں رہتے تھے۔ یہ جھونپڑے کھجور کی ٹہنیوں کے ذریعہ جن پر مٹی لیپی جاتی تھی ایک دوسرے سے جدا تھے۔ آپ خود آگ جلاتے اور جھونپڑیوں میں جھاڑو دیتے تھے۔ آپ کے پاس جو کچھ کھانا ہوتا تھا اس میں سے اُن لوگوں کو حصہ دیتے تھے جو آپ کے پاس جاتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ کے مکان کے سامنے چبوترہ تھا اور اس پر ہمیشہ ایک تعداد اُن غریبوں کی بیٹھی رہتی تھی جن کا گذارہ بالکل آپ کی خیرات پر منحصر تھا اور اس لیے ان غریبوں کو اصحابِ ۔ّصفہ کہا جاتا تھا۔ آپ کا معمولی کھانا کھجوریں اور پانی یا جو کی روٹی ہوتی تھی۔ دودھ اور شہد آپ کا سامانِ عشرت تھا اور ان دونوں چیزوں کے آپ بڑے شائق تھے، مگر آپ یہ چیزیں شاذ و نادر ہی استعمال کرتے تھے۔ جب آپ عرب کے بادشاہ بن گئے تو بھی آپ ریگستانوں کی سیاحت کو بہت پسند کرتے تھے۔1 (1 لین پول)
غریبوں کا احترام: رسولﷺ نے غریبوں کو یہ کہہ کر درجۂ تقدیس بخش دیا کہ غریبی آپ کا فخر ہے۔ آپ نے خدا سے دعا کی کہ آپ کو غریبی میں رکھے، آپ کو حالتِ غریبی میں موت دے اور حشر کے دن آپ کو غریبوں میں اُٹھائے۔