ایک شخص نے آپ سے کہا کہ خدا کی قسم! میں آپ کے ساتھ محبت رکھتا ہوں۔ آپ نے اس سے جواب فرمایا کہ اگر تم صادق ہو تو غریبی کے لیے تیار ہوجاؤ کیوںکہ جو کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے غریبی اس کے پاس بہت زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سمندر کی رو کی طرح پہنچتی ہے۔ اور آپ نے کہا کہ غریبوں کو اپنے پاس آنے دو، کیوںکہ اسی وجہ سے اللہ تم کو اپنے پاس بلائے گا۔ پھر آپ نے کہا کہ میرے اطمینانِ دل کو تمام غریبوں اور حاجت مندوں میں پاسکتے ہو۔ تم عشرت و راحت سے دور رہو، کیوںکہ اسلام کے خاص خادم جو اس کی عبادت میں لگے رہتے ہیں وہ عیش پرست نہیں ہوتے۔
بزرگی اور پیغامبری: آپ اس قدر منکسر مزاج تھے کہ آپ کسی کو اپنی نسبت اس سے کچھ زیادہ نہیں کہتے تھے کہ آپ خداکے بندے اور اس کے پیغامبر ہیں۔ آپ اپنے دلی معتقدوں کو یاد دلاتے رہتے تھے کہ میں انسان سے بڑھ کر نہیں ہوں، اگرچہ آپ کا دعویٰ تھا کہ آپ خاتم النّبیین اور سرآمد انبیا ہیں، یعنی سب سے آخری اور سب سے بڑے نبی ہیں، مگر ساتھ ہی اپنے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں اور نیز باقی انسان اُس وقت تک بہشت میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ خدا آپ کو اپنی رحمت سے نہ ڈھاک دے گا۔ جہاں آپ نے ایک طرف یہ اعلان کیا کہ خود میں محض خدا کے فضل کی بدولت نجاب پاؤں گا وہاں آپ نے انسانوں کو بھی تسکین دی کہ خدا کی رحم دلی اس کے غصہ پر غالب آجاتی ہے اور یہ کہ خدا نے بہشت کے دروازے نام نہاد بے دینوں پر بند بھی نہیں کیے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر کسی بے دین کو معلوم ہوجائے کہ خدا کس درجہ رحیم ہے تب بھی اسے بہشت کی طرف سے مایوسی نہ ہونی چاہیے۔
مسٹر بھوپندر ناتھ باسو: مسٹر بھوپندرناتھ باسو بنگال یونیورسٹی کے چانسلر اور انڈیا کونسل کے ممبر تھے۔ نیز بنگال کے ان مسلّمہ لیڈروں اور فاضل اہلِ قلم میں سے تھے جن کی مثالیں ہندوستان میں تقریباً نایاب ہیں۔آپ ہندوؤں کی ذات پات کی خرابیاں بیان کرکے تحریر فرماتے ہیں:
’’میری رائے میں نوعِ انسان کی ۔ُبرائیوں کے ۹؍۱۰ حصہ کو اس فرضی و مصنوعی برتری کے تصوّرات سے منسوب کیا جاتا ہے جو اپنی زعم ناقص میں ایک طبقہ دوسرے طبقہ کی نسبت رکھتا ہے اور ایک آدمی دوسرے شخص سے اور ایک قوم دوسری قوم سے اپنے آپ کو افضل سمجھتی ہے۔ یہ مصنوعی عدمِ مساوات جو خرابیاں ظہور میں لاسکتی ہے مقدس پیغمبر کے وقت میں بھی موجود تھیں، لیکن مذہبی تعلیمات کی صحت بخش سپرٹ کے تحت میں ذاتی مثال ہے آں حضرت (ﷺ) نے ایک ایسی قوم پیدا کی جس میں افریقہ کا سیاہ فام فرزند کسی عربی قبیلہ کے مغرور ترین سردار کا ہم ۔ّپلہ متصور ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سچی جمہوریت کا ولولہ، رواداری و مساوات کی خوبیاں اس نے دنیا کے ہر ایک گوشہ میں پھیلا دی۔