ہندوؤں کا مسلمان ہونا جبریہ نہ تھا: مسٹر گو بندرام کھنّہ ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال ہندو اہل قلم لالہ لاجپت رائے کے انگریزی اخبار ’’پیپل‘‘ مورخہ ۸؍ اگست میں ایک مضمون کے سلسلہ میں ہندو جاتی کے معاشرتی نقائص اور کمزوریوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں کی تبلیغ کوششوں کے متعلق فرماتے ہیںکہ
یہ خیال کرنا غلط ہے کہ لاکھوں ہندوؤں کا اپنا آبائی مذہب ترک کرکے مذہبِ اسلام اختیار کرنا تمام تر مسلمان حکمرانوں اور مسلمان حملہ آوروں کے جبر و ۔ّتشدد کا نتیجہ تھا۔ مسلمان حملہ آوروں میں تبلیغِ مذہب کا جوش ضرور تھا اور انھوں نے بڑی تعداد جبراً مسلمان کی، لیکن گزشتہ آٹھ صدیوں میں لوگوں نے جو تبدیل مذہب کیا ہے ان سب کو محض جبر کا نتیجہ و سبب نہیں کہا جاسکتا۔ مسلمانوں کے سیاسی غلبہ و اقتدارکا تو سلطنت مغلیہ کی بربادی و تباہی پر عملاً خاتمہ ہوچکا تھا اور دکن و ممالک متوسط میں اور پنجاب میں سکھوں کو قوت حاصل تھی، لیکن بایں ہمہ تبدیلی مذہب کا سلسلہ بند نہیں ہوا تھا۔ یہ اگرچہ ناگوار اور دل آزار بات تو ضرور ہے مگر اس تلخ صداقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہندوؤں کا مذہب آبائی چھوڑ کر ایک مسلسل سرچشمہ کی حیثیت میں مذہبِ اسلام میں داخل ہونا اس کا سبب خود ہندوؤں کے نظامِ معاشرت کی فرسودگی اور مذہب اسلام کی قوت جذب و قبولیت رہا ہے۔ ہمیں اس مروّجہ خیال سے اپنے دل کو تسلی نہیں دینا چاہیے کہ ہندوؤں کا مذہبِ اسلام اختیار کرنا جبراً و ۔ّتشدد کا نتیجہ تھا۔ خود بینی انسان کا سب سے زیادہ مہلک دشمن ہے۔ میرے خیال میں بیوگی کی زندگی کا جبر یہ رہنا ہندوؤں کے مختلف طبقات میں معاشرتی مساوات کا نہ ہونا اور ان لوگوں کے ساتھ جن کو ہم نیچ ذات کے نام سے موسوم کرنا پسند کرتے ہیں قریب قریب جانوروں کا سا اور وحشیانہ برتاؤ کرنا ان سب باتوں نے لاکھوں ہندوؤں کو اسلام کے حلقہ میں داخل کردیا اور تا وقتیکہ حالات میں پوری تبدیلی نہ ہوجائے مستقبل قریب میں اس تبدیلی مذہب کے بجائے گھٹنے کے اور زیادہ بڑھنے کا امکان ہے۔1 (1 ہمدرد)
اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْأَعْدَائُ
بے شک بزرگی اور فضیلت وہی ہے جس پر دشمن اور اعدائے اسلام گواہی دیں۔ یورپ اور امریکا کے بڑے بڑے محقق اصحابِ فراست و لیاقت نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ حضور انورﷺ کا درجہ اور مرتبہ دنیا کے بڑے بڑے لوگوں