زینب ؓ : یہ وہ بیوی ہے جس کی نسبت مخالفین طرح طرح کی چہ می گوئیاں کرتے ہیں۔ واقعات یہ ہیں۔ زینب آں حضرتﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ بیس سال کی عمر میں حضرت نے اُس کی شادی زید بن حارث سے کی تھی۔ ہر چند زینب دل سے اس شادی پر راضی نہ تھیں مگر انکار بھی نہ کرسکتی تھیں۔
زید اصل میں بی بی خدیجہ کا ایک حبشی غلام تھا اور شروع ہی میں ایمان لاچکا تھا۔ بی بی خدیجہ نے اس کو غلامی سے رہا کردیا اور اجازت دی کہ اپنے ماں باپ کے ہاں چلا جائے، مگر اس نے بدستور آپ کے ہاں رہنا پسند کیا اور اپنے آپ کو اس قدر اہل ثابت کیا کہ حضرت محمد صاحب نے اس کو متبنیٰ بنالیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو زینب اور زید کے نکاح میں اس قدر دلچسپی تھی۔ گو آپ زینب کا ہاتھ زید کو دے سکتے تھے۔ اس کا دل دینا اس کے اپنے ہاتھ میں تھا۔ میاں بیوی میں آئے دن کھٹ پٹ ہونے لگی اور طلاق کی نوبت پہنچی۔ آں حضرت نے بہتیرا فریقین کو سمجھایا، مگر محبت کا دیوتا جو آنکھوں سے اندھا ہے اور فقط دل کی آنکھوں سے دیکھا کرتا ہے رضا مند نہ ہو اطلاق ہوگئی۔
زینب بڑی قابل عورت تھی نہ معلوم اس کے دل میں کیا کیا اُمنگیں تھیں اُس کی آرزو یہ تھی کہ اُسے رسول اللہ کی زو۔ّجیت کا فخر نصیب ہو۔
(ناظرین! کیا آپ اس جذبہ کو مضحکہ اُڑانے کے قابل سمجھتے ہیں؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا دل عورت کا دل نہیں ہے)۔
اہلِ عرب میں متبنیٰ بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا جائز نہ تھا۔ آں حضرت کو قدرتی طورپر تشویش ہوئی۔ زینب کسی اور کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہ کرتی تھی اور آپ کا پہلا تجربہ اس کے حق میں ناگوار ثابت ہوچکا تھا۔ اب کریں تو کیا کریں؟
بالآخر غور کرتے کرتے ان کو اندرونِ دل سے یہ صلاح ملی کہ زینب سے نکاح کرنا عین مناسب ہے جائز ہے۔ یا اسلام کی اصطلاح میں یوں کہیے کہ حضرت کو الہام ہوا کہ زینب سے نکاح کرنا جائز ہے۔
مخالف لوگ کہا کرتے ہیں کہ آں حضرت نے ایک ناجائز فعل کو جائز ٹھہرانے کے لیے ایک ’’خاص وحی‘‘ کے اترنے کا بہانہ بنایا۔ اگر وہ تعصب کو چھوڑ کر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ جو فعل ایک ملک یا ایک زمانہ میں جائز سمجھا جاتا ہے وہی فعل کسی اور ملک یا اور زمانہ میں ناجائز ٹھہرتا ہے۔ یعنی کثیر الازدوجی جس کو اسلامی اخلاق میں جائز سمجھا جاتا ہے عیسائی اخلاق کی رُو سے قابلِ نفریں ہے اور نہ صرف ہندوؤں میں مہا بھارت کے زمانہ میں ایک بیوی در و پدی کے لیے پانچ خاوند کرنا جائز تھا، بلکہ اب بھی دور دراز پہاڑوں میں ایسی قومیں موجود ہیں جن میں یہی رسم جاری ہے۔