نیستان ۔ّغراتا پھرتا ہے وہ ہندو یا آریہ یا عیسائی کسی کی دینی کتاب سے ڈرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے اسلام ۲۲ کروڑ ہندوؤں کو دعوت دیتا ہے کہ اگر تم قرآنِ مجید کو ثالث نہیں مانتے ہو تو نہ سہی، اگر تم حدیث یا فقہ کو ثالث نہیں مانتے ہو تو نہ سہی، چلو ہم تمہارے تألیفِ قلوب کی خاطر اور اس نیت سے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد قائم ہوجائے، ہم تمہارے منو دھرم شاستر کو بہ طور ثالث کے مان لیتے ہیں وہ گائے، ۔ُ۔ّسور، باجہ، سود خواری، گوشت خواری، بت پرستی، حیوانی قربانی وغیرہ کا جو فیصلہ کردے ہمیںمنظور ہے اور ہوگا، مگر کیا دھرم شاستر کے فیصلہ کو ہندو بھی تسلیم کرلیں گے؟ میرا خیال ہے کہ جب ان کو پتا لگے گا کہ ہمارے دھرم شاستر میں سے بھی اسلام نکل رہا ہے تو وہ اس دھرم شاستر کو بھی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، اسی لیے تو میں نے کہا ہے کہ ’’کفر میں بھی اسلام موجود ہے‘‘۔ کاش! اگر اہلِ کفر اتنے ہی اسلام کو مان لیں جتنا کہ ان کے کفر میں موجود ہے تو یہ بھی از بس تعجب ہے۔
اب میں اس کے بعد میں آریہ سماج کے ساتھ مشترکہ محاذ پر چند کلمات کہوں گا، وہ بھی اگر ہمارے ساتھ ان جملہ مسائل کا جو ہمارے اور ان کے درمیان مناقشت کا باعث بن رہے ہیں کوئی فیصلہ کرنے کے لیے تیار ہوں تو ستیارتھ پرکاش سوامی دیانند کی کتاب مطبوعہ ۱۸۵۷ء کو ثالث مان کر میدان میں آجائیں۔
توحید، رسالت، بہشت، دوزخ، گوشت خواری، حیوانی قربانی، گائے کی قربانی وغیرہ مسائل کا جو فیصلہ یہ کتاب کردے آریہ سماج اُس کو مان لے ہم مسلمان تیار ہیں کہ اس پر دستخط کردیں۔
1 (1 (لا) منقول از ’’مشرق‘‘ گور کھپور۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۲۹ء
اسلامی نماز کے عظیم الشان فوائد کا اعتراف
مغرب کے نامور فلسفیوں اور پادریوں کی طرف سے: مصر کے مشہور جریدہ ’’المؤیّد‘‘ (قاہرہ) میں ’’فضیلۃ لصلاۃ‘‘ کے عنوان سے ایک فاضلانہ مضمون شایع ہوا ہے جس میں فاضل مضمون نگار نے کافی مطالعہ و عرق ریز جستجو کے بعد نماز کی فضیلت میں مغربی فلاسفروں کے اقوال جمع کیے ہیں اور یہ دکھایا ہے کہ اسلام کے رکنِ اعظم نماز کے متعلق ان کے کیا خیالات ہیں اور وہ اس مقدس عبادت کو کن کن رُوحانی و مادی کمالات کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔
المؤید کے فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں: