بھوا بھوتی کا زمانہ: ویدوں کے ابتدائی زمانہ میں بھی یہی قانون اور رواج تھا اور اس کے بعد سنسکرت کی اونچے درجہ کی کتب میں اسی کا پتا چلتا ہے۔ بھوا بھوتی کے مشہور ناٹک ’’اوتررام چرت سین‘‘ ایک سین ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ راکھو خاندان کے راجاؤں کا سب سے بڑا (مہا) پردہت واملیکی کے آشرم میں قدم رنجہ فرمایا ہے (یہ آشرم قدیم ہندو یونیورسٹیوں کے قائم مقام تھے جہاں تمام ملک سے طلبہ آکر تحصیل علوم کیا کرتے تھے) جب مہا پردہت تشریف لائے تو اُن کے اعزاز میں طلبہ کو چھٹی دی گئی۔ ناٹک کے مین میں سب سے پہلے طلبہ کی بات چیت ہے۔ ایک لڑکا سوال کرتا ہے کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ دوسرا جواب دیتا ہے کہ یہ رشی سسٹ گین جو راکھو راجاؤں کے مہار پردہت ہیں۔ پہلا لڑکا کہتا ہے کہ ہاں! میں سمجھتا تھا شیر ہیں۔ دوسرے نے کہا: تم توہین کرتے ہو۔ پہلے نے کہا: نہیں، یہ بگڑنے کی بات نہیں، یہ بڈھا جب ہمارے آشرم میں آیا تو اس کے لیے ہمارا پیارا بچھڑا اس کی ضیافت کے لیے ذبح کر ڈالا گیا پھر یہ شیر کیوں نہیں؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھوا بھوتی کے زمانہ تک یہی رسم جاری تھی۔
آریہ ہندو گوشت خور: پال بابو کہتے ہیں کہ آریہ ہندو یعنی زمانۂ حال کے برہمنوں کے باپ دادا گائے کا گوشت کھاتے تھے۔ اس کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ سنسکرت میں مہمان کو ’’گئوگہنا‘‘ کہتے ہیں۔ جس کے معنی ’’گائے کو مارنے والا‘‘ ہے۔ جب گائے کا گوشت کھانا اور گائے کا ذبح کرنا ترک کردیا گیا تو بجائے اس کے گائے مہمان کو نذر دینے کی رسم قرار دی گئی، یعنی جب مہمان رخصت ہوتا تو گائے اس کے حوالہ کردی جاتی۔ رفتہ رفتہ یہ نذرانہ گائے بھی متروک ہوا، مگر اس کی جگہ مہمان کے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک گائے دروازہ پر باندھ دی جاتی تھی اور مہمان کی رخصتی پر خاندان کا نائی بلند آواز سے چلا کر کہتا تھا کہ گئو، گئو، گئو، گئو (یعنی گائے، گائے) اور دروازہ پر بندھی ہوئی گائے کھول دی جاتی تھی۔ چناںچہ یہ رسم ملک کے اکثر حصوں میں اب تک جاری ہے۔ اور بنگال میں جب کسی ہندو گھرانے میں شادی ہوتی ہے تو اس کی بعض رسوم میں نائی، ’’گئو، گئو، گئو ،گئو ‘‘کے نعرے لگایا کرتا ہے۔ اس لیے ہندوؤں کو کوئی حق نہیں کہ بقر عید کے تہوار پر گائے کی قربانی کے خلاف وہ مسلمانوں کا سر پھوڑتے پھریں۔
ز۔ّنار بندی میں گائے کا چمڑا: سب سے زیادہ مضبوط دلیل یہ ہے کہ جب برہمن کو ز۔ّنار پہنایا جاتا ہے اور یگپویوپت کی