(پروفیسر عربی لندن یورنیورسٹی کے قلم سے)
ہم ذیل میں جو مضمون درج کررہے ہیں وہ اگر چہ ایک انگریز فاضل کا لکھا ہوا ہے، مگر اپنی خصوصیات کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ اسے غور سے پڑھا جائے، اس میں ایک طرف تو اس الزام کو روکا گیا ہے کہ اسلام تلوار سے پھیلا اور دوسری طرف مسلمانوں کے ماضی کا حال سے مقابلہ کرکے اُن کے لیے عبرت حاصل کرنے کا موقع پہنچا دیا گیا ہے، ممکن ہے کہ اس مضمون میں کہیں کہیں تاریخی و مذہبی غلطیاں موجود ہوں، مگر اس کی عام سپرٹ اور خصوصاً ہندوستان کے موجودہ حالات پر تبصرہ قابلِ غور ہے۔
آں حضرتﷺ کا طریقِ تبلیغ: اسلام ابتدا ہی سے ایک تبلیغی مذہب تھا۔ جب حضرت محمدﷺ نے مکہ کے رہنے والوں کی وحشیانہ عادات چھڑا کر انھیں مسلمان بنایا ہے تو نہ ان کے پاس طاقت تھی نہ دولت۔ بلکہ صرف ایک آلۂ تبلیغ تھا جسے زبان کہتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ عقیدۂ توحید پر صرف ایک ہی طریقہ سے زور دے سکتے ہیں اور وہ یہ تھا کہ بت پرستی کی خوف ناک سزاؤں سے متنبہ کریں۔ اور ان انبیا ؑ کی تعلیمات کو یاد دلائیں جو آں حضرت ﷺ سے پہلے ہر زمانہ میں اللہ رب العزت کا پیغام لے کر مبعوث ہوئے تھے، البتہ جب حضورﷺ مدینہ تشریف لے گئے تو آپﷺ کو فدا کار انصار کی ایک ایسی جماعت مل گئی جو آپ پر سے اپنی جانیں قربان کرنے اور ایک آزاد حکومت کے قیام کی بنا ڈالنے کے لیے تیار تھی۔ اگرچہ اس وقت اس کی حیثیت بالکل بدل گئی تھی، مگر اس کے باوجود آں حضرتﷺ کی وفات کے بعد تبلیغِ اسلام کا وہی طریقہ جاری رہا کہ افراد کو نیکی کی ترغیب دے کر قبولِ اسلام پر راضی کیا جائے۔
قرونِ اولیٰ میں تبلیغِ اسلام: آں حضرتﷺ کی وفات کے بعد تبلیغِ اسلام کے متعلق یہ رہا کہ مسلمانوں نے مفتوحہ ممالک کے باشندوں کو ہمیشہ اسلام کی دعوت ان صریح وصاف ہدایات کے مطابق دی جو قرآن حکیم میں بیان کردی گئی ہیں، لیکن ہمیں اس کی شہادت نہیں ملتی کہ ابتدائی زمانہ میں مسلمانوں نے تبلیغِ اسلام کے متعلق کچھ زیادہ جوش و خروش کا اظہار کیا ہو، لیکن اس کے باوجود رومی سلطنت اور ایرانی سلطنت کے مفتوحی صوبوں میں جو عیسائی آباد تھے اور ایران میں جو زرتشتی رہتے تھے، انھوں نے بڑی کثیر تعداد میں اسلام قبول کرلیا، حالاںکہ مسلمانوں نے عیسائیوں یہودیوں زرتشتیوں کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا تھا اور ان کے لیے صرف ایک یہ شرط لگا دی تھی کہ وہ اطاعت کریں اور جزیہ