ہے۔ اس گاؤں کے باہر کچھ پرانے کھنڈرات ہیں جن میں ایک بلا چھت کے محل شاہی اور کچھ زمین دوز راستے اور آثار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ راج بھوج کے محل کے گرے پڑے نشانات ہیں۔
۷۔ بھوج پتی یا بھوج پوتھی کی بابت اکثر لوگوں سے ذکر آیا ہے، یہ وہی پوتھی ہے جس کو علامہ فیضی نے فارسی میں ترجمہ کیا تھا اس کی بابت مزید تحقیقات کی ضرورت ہے کہ آیا راجہ بھوج کا روزنامچہ فارسی میں اس وقت کسی کتب خانہ میں ہے یا نہیں۔
۸۔ بلیا کے پرانے قصصِ تاریخی میں ہے کہ دریائے گنگا کے اسی ساحل جس پر غازی پور اور بلیا ہے۔ دسوامتر مشہور ہندورشی کی کٹی تھی اور یہ مشرقی حصہ کسی بڑی ہندو حکومت کا پتا اپنے روایات سے دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس نواح میں اسلام راجہ بھوج کے مسلمان ہونے پر پھیلا ہو۔ اور غازی پور، اعظم گڑھ اور گور کھپور میں جو بڑی تعداد راجپوت مسلمانوں اور شریف ہندوؤں کی پھیلی ہے وہ ایک بڑے راجہ کو مسلمان ہونے پر مبنی ہو۔ اسی نواح بلیا میں پرسرام ایک مشہور ہندو راجپوت فاتح گزرا ہے جس نے برہمنوں کے خلاف ایک سلسلۂ جنگ و حرب کو تا دیر جاری رکھا تھا۔
۹۔ میرے ایک عزیز جو بھوجپور کے قریب رہنے والے اور اکثر انھیں اطراف میں اپنی آمد و رفت رکھتے ہیں کہہ رہے تھے کہ یہاں گنواروں میں شہرت ہے کہ راجہ مسلمان ہوگیا تھا۔ اس کو تخت سے اتار دیا گیا تھا اور وہ گجرات کی طرف چلا گیا تھا۔
۱۰۔ راجہ بھوج اوّل اور راجہ بھوج ثانی کی بحث میں مزید کاوش اور جگ پیمائی کی حرکات سے ممکن ہے کہ نام اور کچھ ہوتا رہا ہو صرف لقب راجہ بھوج ظاہر بات کے ساتھ مشہور ہوا ہو۔ بہرحال یہ راجہ بڑا راجہ گزرا ہے۔
۱۱۔ راجہ بھوج کے آثار پیشین اور ذرّاتِ قدامت میں ایک چیز ایسی بھی مٹی ہوئی پائی جاتی ہے جس کو رصد خانہ کہہ سکتے ہیں اور جس کے دھند لے نشانات بزبانِ حال کہہ رہے ہیں کہ اس راجہ کے دربار میں بڑے بڑے نجومی بڑے بڑے مقدس عالم سنسکرت کے تھے۔ جنھوں نے اپنے کتب اور روایات سے اس کو تسلیم کیا تھا کہ کوئی سچا پیغمبر عرب میں گزرا ہے۔
مزید یاد داشتیں: جب موپلوں کے واقعات یعنی ہندوؤں پر کیا کیا مظالم موپلوں نے کیے اس کی تحقیقات کے لیے مہاتمہ لالہ ہنسراج بی۔ اے نے سواحل مالا بار کی سیر کی تھی تو اس میں ایک روز ان کو ساحل مالا بار پر اسلام کے پھیلنے کا راز معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اتفاقیہ انھیں مالا بار کے کسی پرانے مندر میں جس کی کہنگی اور تبرکات ماضیت موجبِ جذبِ تشویق