اسی ۔َتنے کی دوسری شاخ بی بی حبیبہ ۱۷؍ سال کی عمر میں ایمان لائی اور بعد میں اپنے خاوند کے ساتھ ہجرت کرکے حبش جانے پر مجبور ہوگئی۔ وہاں اس کا خاوند نصرانی ہوگیا اب نہ راہ رفتن نہ پائے ماندن۔ اگر پیغمبر ِصاحب اس حالت میں اس کا ہاتھ نہ پکڑتے تو سخت بے حمیتی کے سزا وار ہوتے۔ آپ نے اُن کو نکاح کا پیغام بھیجا اور خالد کی وساطت سے رسومات نکاح ادا کیے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد مدینہ آئیں۔ اسی عرصہ میں اُن کے والد ابو سفیان کو پیغمبرِ صاحب سے معاہدہ کرنے کے لیے مکہ سے مدینہ جانے کا اتفاق ہوا۔ جب وہ بی بی حبیبہ سے ملنے کے لیے مکان پر گیا، حبیبہ نے اُس کو آتے دیکھ کر وہ مسند جس پر پیغمبر صاحب بیٹھا کرتے تھے تہ کرکے الگ رکھ دی اور جب باپ نے اُس کا سبب دریافت کیا تو کہا: میں یہ گوارہ نہیں کرسکتی کہ رسول اللہ کی مسند پر ایک مشرک بیٹھے۔ ’’آن ہو تو ایسی ہو‘‘۔
بی بی جوریہ: ان کا باپ حارث قبیلہ بنو المصطلق کا سردار تھا اور بڑا نامور بہادر اور شہسوار تھا وہ ایک مرتبہ حضرت محمد صاحب کی غیر حاضری میں مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ لڑائی میں میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور حارث کے خاندان کی عورتیں جن میں جویریہ بھی تھیںقید ہوگئیں جویریہ ایک صحابی کے حصہ میں آئی جس نے ایک معیّنہ رقم کے عوض اس کو رہا کرنا منظور کیا۔ مگر جویریہ کے پاس رقم نہ تھی، اس لیے وہ پیغمبرِ صاحب کے پاس آئی۔ آپ نے معیّنہ رقم ادا کرکے اس کے ساتھ نکاح کرلیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اس نکاح کے پاس خاطر سے جویریہ کی قوم کے تمام قیدی جو اُن کے حصہ میں آئے تھے یکے بعد دیگرے رہا کردیے، اس مروّت کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ حارث اور اس کی ساری قوم کے لوگ خوشی سے خلقۂ اسلام میں آشامل ہوئے۔
بی بی صفیہ: یہ ایک باوقار یہودی کی بیٹی تھی جس کی دوسری شادی خیبر کے یہودی سردار کنانہ کے ساتھ ہوگئی تھی۔ خیبر کی فتح کے وقت صفیہ مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوگئی۔ آں حضرت نے اسے عقدِ نکاح میں لا کر خیبر کے یہودیوں سے دوستانہ رشتہ قائم کیا۔
غرضیکہ دو ایک نکاح کو چھوڑ کر باقی جس قدر نکاح آں حضرت نے کیے وہ یا تو اس وجہ سے تھے کہ ان بیوگان کا جنھوں نے اسلام کی خاطر طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھائی تھیں سوائے ذاتِ خدا اور کوئی ہاتھ پکڑنے والا دنیا میں نہ تھا یا اس وجہ سے کہ ان نکاحوں کو آں حضرت اسلامی طاقت کے استحکام کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ یہ آخری نکاح عین اسی قسم کے تھے