ترقیات کے راستہ میں سنگِ گراں بنا ہوا ہے، لہٰذا اس کو اتار پھینکنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ لیڈم سیبور کا وہ مقالہ پڑھیں جو جریدہ ’’لازیری‘‘ میں بعنوان ’’ایک مسلم خاتون میری نگاہ میں‘‘ شایع ہوا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ مجھے ایک مسلم خاتون سے بڑھ کر جو پردہ میں لپٹی ہوئی ہو کوئی چیز پسند نہیں آتی۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ لوگ بہت ہی بے وقوف ہیں جو بے پردگی پرسختی سے جمے ہوئے ہیں، حالاںکہ یہ بدیہات میں سے ہے۔ مردوں اور عورتوں میں باعتبارِ عمل کے بہت فرق ہے، ایسی حالت میں عورتوں کی بے پردگی جو مردوں کا خاصہ ہے کچھ مفید ثابت نہ ہوگی، بلکہ عورت کو بے پردہ کرنا اُس کو بد ترین اخلاق کو مرتکب بنانا ہے۔
میرے خیال میں ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ایک مسلم عورت مردوں کے دوش بدوش بے پردہ ہو کر سیرگاہوں میں پھرتی رہے۔ مبدۂ فیاض نے اُن کے اعمال میں جو تقسیم کردی ہے یہ بے پردہ ہو کر اُس تقسیم کو باطل کردیں۔
باقی رہا اقتصادیات میں عورتوں کا حصہ تو اقتصادیات میں عورتوں کا کوئی دخل ہی نہیں ہے۔ بسا اوقات مجھے ان لوگوں پر ہنسی آتی ہے جو کہتے ہیں کہ پردہ ہی ایک روڑا ہے جو ترقیات کے راستہ میں اٹکا ہوا ہے اور آج مسلم خواتین محض اسی وجہ سے جہالت اور پستی کے عمیق گڑھوں میں پڑی ہوئی ہیں، مگر میرے نزدیک قواعد اجتماعیت میں اس کو کو ئی دخل ہی نہیں ہے اور یہ دلیل بالکل بے محال لائی گئی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پردہ ترقیات کے راستہ میں قطعاً حائل نہیں اور سب سے بڑی غلطی یہ ہی ہے کہ عورت کو خواہ بے پردگی کی تعلیم دی جائے، بلکہ عورت کو زیادہ تعلیم بھی نہ دی جائے، مفید ضرورت کافی سمجھی جائے۔
1 (1 (لو) منقول ’’مہاجر‘‘ دیوبند مؤرخہ ۲۹ جولائی ۲۹ء
اہلِ ہنود کی کتابوں میں حضورِ اقدسﷺ کی رسالت کا ذکر مبارک: ہندو کتابوں میں بھی حضور انورﷺ کا تذکرہ موجود ہے اور نہایت بسط و تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
اس تحقیق اور تخصیص کے ۔ُعلما میں حضرت مرزا مظہر جان جاناں ؒ دہلوی، شاہ عبدالعزیز ؒ ، شاہ ولی اللہ ؒ ، مولوی عبدلرحمن چشتی عالم سنسکرت مؤلف ’’مرأۃ المخلوقات‘‘، مولوی محمد حسن مؤلف ’’تصدیق الہنود و کشف الاستار‘‘ (مطبوعات اجمیر شریف)، طالب حسین نو مسلم فرخ آبادی، سیف اللہ گور کھپوری، مولوی عبدالعزیز بن غلام احمد مؤلف ’’بشارتِ احمدیہ‘‘۔1 (1 دہلی مطبوعہ یوسفی ۱۲۷۲ھ)