اس لیے قطعاً حرام ہے۔ لہٰذا جو شخص ۔ُ۔ّسور کا گوشت کھاتا ہے وہ بھشٹ ہوجاتا ہے یعنی بے دین ہوجاتا ہے۔ اور پھر منودھرم شاستر اپنے اسی ادھیا کے اٹھارہویں شلوک میں یہ فیصلہ دیتا ہے کہ اونٹ کو چھوڑ کر باقی جس قدر جانور ایک طرف دانت رکھنے والے ہیں وہ سب حلال ہیں۔ بھکسن یعنی خوردنی ہیں۔ تم خود فیصلہ کرلو کہ ایک طرف دانت رکھنے والے وہ کون کون سے حیوان ہیں جن کو منودھرم شاستر نے حلال بتایا ہے؟ اور آیا ایسے جانوروں کی فہرست سے گائے، بھینس، بھیڑ، بکری کوئی بھی بچ سکے؟ اور پھر اسی ادھیا کے شلوک ۴۲ میں منودھرم شاستر نے حلال جانوروں کی قربانی کی فضیلت پر زور دیا اور شلوک ۳۶ میں ایسے گوشت کا منع کیا ہے جس پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جو ایسے حلال یا ذبیحہ کے کھانے سے انکار کرتا ہے وہ گناہ گار ہے۔ اب تم منور دھرم شاستر کے اس فیصلہ کے ساتھ قرآن پاک کے اس قسم کا مطالعہ بھی کرجاؤ جس میں بتایا کہ {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَـا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ}1 (1 البقرۃ: ۱۷۳) یعنی ’’مسلمانوں کے لیے مردار خون، ۔ُ۔ّسور کا گوشت اور ہر ایک وہ گوشت جس پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو، حرام کردیئے‘‘۔ ادھر منودھرم شاستر بھی فرماتا ہے کہ تمہارے لیے ۔ُ۔ّسور کا گوشت اور ہر ایک وہ گوشت جس پر خدا کا نام نہیں لیا گیا حرام کردیا گیا۔ معلوم ہوا کہ ۔ُ۔ّسور کی حرمت اور گائے کی ۔ّحلت، اور حیوانی قربانی کا جو منودھرم شاستر اور قرآنِ مجید کا مشترکہ مسئلہ ہے اور یہ وہ ’’کلمہ سواء‘‘ ہے جس کی طرف سے قرآنِ مجید نے دھرم شاستر ماننے والوں کو دعوت دی ہے۔
مسلمانو! اب میں تم سے پوچھتا ہوں کیا تم گائے کی قربانی، اور لحمِ خنزیر، اور حیوانی قربانی کے متعلق منودھرم شاستر کے فیصلہ کو ماننے کے لیے تیار ہو؟ یقینا اب تم میں سے ایک بھی ایسی آواز میں نہیں سنتا جو یہ کہنے کے لیے تیار ہو کہ تم دھرم شاستر کے فیصلہ کو نہیں مانوگے، کیوں؟ اس لیے کہ اب تمہیں علم ہوگیا ہے کہ دھرم شاستر کیا کہتا ہے۔ اور علم ہی طاقت ہے۔ اس علم کی اب تمہارے دل میں تقویت پیدا ہوگئی ہے اور تم خم ٹھوک کروڑ ہندوؤں کو یہ کہہ سکتے ہو کہ گائے اور ۔ُ۔ّسور کا معاملہ اگر قرآن مجید سے نہیں تو آؤ منودھرم شاستر سے ہی مل کر کرلو۔ یہ کتنی بڑی طاقت سے بھری ہوئی آواز ہے کہ تم مسلم ہو کر غیر مسلم کے سامنے اس کی دینی کتاب سے بھی اسلام کا رس نچوڑ کر رکھ سکتے ہو۔
اس لیے تو میں نے کہا ہے کہ ’’کفر میں بھی اسلام موجود ہے‘‘، اگر اہلِ کفر اتنے ہی اسلام کو مان لیں جو اُن کے کفر میں موجود ہے تو بھی ہمارا اور اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے، مگر افسوس تو یہ ہے کہ جب ان کو پتا لگے گا کہ کفر کا ۔ّگنا اسلام کے بیلنے میں بیلا جا کر اسلام کا رس ٹپکا رہا ہے تو وہ اپنے اس ۔ّگنے کو بھی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ اب اس کا علاج نہ تومیرے پاس ہے نہ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس۔