بہت اچھا اب ذرا مسجدوں کے سامنے باجے کے سوال کو لے لو۔ منودھرم شاستر نے ناچنے گانے اور باجہ بجانے کے کام کو حرام کا پیشہ بتادیا ہے اور فرمایا ہے کہ ’’جو شخص یہ پیشہ کرتا ہو اس کے ہاتھ کا چھوا ہوا پانی تک نہ پیو، اگر کوئی ایسے شخص کے ہاتھ کا پانی یا کھانا کھالے تو وہ تین دن تک فاقہ کرے‘‘۔
اب جس پیشہ ہی کو منومہاراج نے حرام قرار دیا ہے اس پر عمل کرنا یا اس کا اپنا مذہبی شعار بنانا، ہمارے ہندو دوستوں کی کتنی بڑی غلطی ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ مسجدوں کے سامنے باجہ بجانے سے قبل اپنے دھرم شاستر کے چوتھے ادھیاء کے ۱۵ اور ۶۴ شلوک کا اور اس کے بعد ۲۱۰ شلوک کا مطالعہ کرلیں جن میںکہ اس قسم کا پیشہ کرنے والوں کو مرنے کے بعد منودھرم شاسترنے جہنم رسید ہونے کی وعید سنائی ہے۔ آخر یہ کیا وجہ ہے کہ باجہ بجانے کے پیشہ کو منو مہاراج نے حرام قرار دیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ اس پیشہ کرنے والوں کے لیے جہنم رسید ہونے کا ڈر دیا ہے؟ اس لیے اور محض اس لیے کہ یہ چیز دنیا میں شر و فساد کی چیز ہے، اور اس نے ہندوستان میں جو شر و فساد برپا رکھا ہے وہ ہمارے اور تمہارے سامنے ہے۔ مرنے کے بعد نہیں بلکہ ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہی کتنے ہی اہلِ ہند محض مسجدوں کے سامنے باجہ بجانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں۔ تو کیا یہی وجہ نہیں ہے کہ اسلام نے باجہ بجانے کو حرام قرار دیا ہے، تو پھر جس چیز کو اسلام اور منودھرم شاستر دونوں حرام ہی قرار دیتے ہیں اس پر ہندوؤں کا اصرار کرنا اور مسلمانوں سے لڑنا بھڑنا کس قدر دھرم کا خون کرنا ہے۔
بہت اچھا! اب ذرا اور آگے بڑھو۔ سود خواری کا مسئلہ لے لو۔ مسلمانوں کے یہاں سود لینا حرام ہے، مگر ہندو لے رہے ہیں، لیکن دھرم شاستر کیا کہتا ہے؟ دھرم شاستر اپنے چوتھے ادھیاء کے ۲۱۰ شلوک میں حکم دیتا ہے کہ جو شخص سود لیتا ہو اس کے گھر کا کھانا نہ کھاؤ‘‘۔ پھر شلوک ۲۲۲ میں فرماتا ہے کہ ’’جو شخص سود خوار کے گھر کا کھانا کھالے وہ تین دن تک کا فاقہ کرے۔‘‘ یہ تو کھانا کھانے والوں کو سزا دی گئی، مگر وہ جو سود لیتا ہے منودھرم شاستر اس کی سزا کیا ۔ّ مقرر کرتا ہے وہ بھی اسی کتاب میں موجود ہے، میں نہیں چاہتا کہ اس کو سناؤں تم خود مطالعہ کرو۔
اب ذرا س شدھی کو بھی لے لو جو آج کل ہندوؤں اور آریوں کا مرکز بن رہی ہے۔ اس قسم کی شدھی کو منودھرم شاستر نے صریحاً ممنوع قرار دیا ہے، بلکہ ایک جگہ تو ایسی سزا تجویز کی ہے جو نہایت ہول ناک ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو عملی طورپر ۲۲ کروڑ ہندوؤں اور ۷ کروڑ مسلمانوں میں سر پھٹول کا باعث ہو رہے ہیں ظاہر ہے کہ ان کا تصفیہ یا تو اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ۲۲ کروڑ ہندو قرآنِ مجید کو حکم یا ثالث مان لیں۔ بہ صورتِ دیگر ۷ کروڑ مسلمان منو دھرم شاستر کو ثالث مان لیں۔ ہندو چوںکہ دل کے کمزور ہیں وہ قرآنِ مجید کو حکم یا ثالث نہیں مانیں گے، مگر اسلام صفحۂ ہستی پر بہ طور شیر