یاس کے پہلے شنکر گئے تھے اور وہ زر تشتی ہو کر آئے جیسا کہ ’’دساتیر‘‘ مطبوعہ ایران صفحہ: ۱۳۵ میں لکھا ہے۔ اس کے بعد وید و یاس گئے جیسا کہ مذکورہ بالا تحریر سے ظاہر ہے۔ بعدہ وید و یاس نے وہاں سے آنے کے بعد اس مذہب کی ویدوں کے ذریعہ اشاعت کی۔ اسی لیے مراسم جنتری طریقِ عبادت سامان ہوم ویدک لحن، انداز بیان۔ پارسیوں کی کتاب اور وید کا ایک ہے۔ مثال کے لیے میں ارث 1 (1 ماخوذ از ‘‘ویدوں‘‘ کا ماخذ مصنفہ بابا خیل داس، ص:۱۴) یعنی صبح صادق اور میں جھوٹی صبح یعنی صبح کاذب کو سراہتا ہوں (گاہ اشہن آیت ۴ اور ۵)۔ میں ارث یعنی صبح صادق کی تعریف کرتا ہوں (رگوید منڈل ا، سوکت ۵۲ منترا)۔ ڈاکٹر گیگر کی تحقیق ہے کہ ایرین اور زرتشتی کی قدیم جنتری ایک ہے۔ ڈاکٹر جان یسوز نے اپنی کتاب ’’اکونٹ آف دی وید‘‘ اس میں لکھا ہے کہ وید پر جاپتی (خدا) کی ڈاڑھی ہے۔ اس کی سند برہمنا (۳۔۹۳۔۱) سے دی ہے۔ اور لکھا ہے کہ اشلوک بنانے والوں کا نام اور ولدیت بھی موجود ہے۔
آج تیرہ سو برس کا زمانہ گزرا مگر مدعیانِ توحید آج تک قرآن پاک کے ایک جملہ کا سا جملہ نہ بناسکے اور عرب کے فصحا و بلغا کو سورۂ اخلاص دیکھ کر کہہ دینا پڑا کہ یہ انسان کا کلام نہیں۔ اسلام کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ہزاروں دشمن موجود تھے اور ہیں مگر تحریف کرنے سے مجبور۔ جامعیت ایسی کہ دنیا ویسا کلام دوبارہ نہ پیش کرسکی۔ وید پر ان اور منوسمرتیاں بتلائیں کہ ہمارے یہاں تحریف موجود ہے۔ موجودہ انجیل بھی شہادت دیں۔ مگر اسلام اور اس کی مقدس کتاب کو ابد الآباد تک فخر رہے گا کہ وہ تمام نقائص سے پاک ہے۔ تعریف و زیادتی سے محفوظ ہے اور محفوظ رہے گی۔ یہ روحانیت ہی کا نسخہ ہی کہ وہ نور جو فاران پر چمکا تھا اس نے قریب قریب ساری دنیا کو روشن و منور کرکے چھوڑا۔ بنی اسرائیل کی روٹی دوسروں کے آگے نہ ڈالی جائے، مگر دنیا کا سب سے بڑا روحانی فلاسفر تخلقوا بأخلاق اللّٰہ (اخلاق کا سبق خدا سے لو) کہہ کر دنیا کو اخلاق کا سبق دے گا۔ یہیں تک نہیں، بلکہ فرماتا ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ مگر مکرر ارشاد ہوتا ہے: نیک اللہ کے لیے اور گناہ گار میرے لیے ہیں اور اس کے بعد اللہ کا کلام یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ (قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور مؤمنوں کو رسوا نہ کرے گا) سنا کر تسکین دے دیتا ہے۔ یہی سب وجوہ ہیں کہ اسلام نے ایک دنیا کو گرویدہ بنا کر غیروں سے بھی خراج تحسین حاصل کرلیا۔ مذکورہ بالا باتوں کو دیکھ کر ایک منصف مزاج کہہ دے گا کہ اسلام کی روحانیت کے مقابلہ میں گنگا اور جمنا کا پانی، پانی پانی ہے (آزاد کراکتی)
1 (1 (یج) منقول از اخبار’’ مشرق‘‘ گور کھپور۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۲۷ء
گور کھپور ہمیشہ سے مہمان نواز شہر ہے او رجو ایک مرتبہ اس سر زمین پر قدم رکھتا ہے اس کو اس کی خاک پھر کبھی نہ کبھی اپنی خاک پیمائی کے لیے کھینچ بلاتا ہے۔ اس کی وہ گلیاں جنھیں شاعر ریاض خواب میں نہیں معلوم کتنی بار دیکھ چکا اور اپنی آنکھوں سے ان کی جاروب کشی کرچکا ہے، اپنے اندر ایک قوتِ جاذبہ اور بخشش تازہ رکھتی ہیں۔ میں بھی اسی کشمکش کے